رجب طیب اردگان کی شکست فتح میں تبدیل۔۔۔ انتخابات کالعدم قرار، ترکی سے اچانک بڑی خبر آگئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مئی 06, 2019 | 20:08 شام

استنبول (مانیٹرنگ ڈیسک ) طیب اردگان نے شکست کو فتح میں بدل دیا، ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے انتخابی نتائج کالعدم قرار دے دیے گئے، ترکی کے اعلیٰ انتخابی بورڈ نے استنبول کے میئر کے انتخابات کالعدم قرار دیے، فیصلہ انتخابی نتیجے کے خلاف صدر ایرودان کی حکمران جماعت کی اپیل پر سنایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق ترک صدر طیب اردگان نے استنبول میں اپنی شکست کو فتح میں بدل دیا ہے۔ترک میڈیا کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق ترک صدر کی مخالف جماعت کی استنبول کے انتخابات میں فتح کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہ

ے۔ ترکی کے اعلیٰ انتخابی بورڈ نے استنبول کے میئر کے انتخابات کالعدم قرار دیے ہیں۔ فیصلہ انتخابی نتیجے کے خلاف صدر ایرودان کی حکمران جماعت کی اپیل پر سنایا گیا۔ خیال رہے کہ ترکی میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں صدررجب طیب اردوغان کی جماعت کو دارالحکومت انقرہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان انتخابات کو صدر اردوغان کے بارے میں ریفرینڈم قرار دیا جا رہا تھا اور اس شکست کو 16 برس سے برسراقتدر صدر اردوغان کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔ترکی کے الیکشن کمیشن کے مطابق استنبول میں متحدہ اپوزیشن کومیئر کے انتخابات میں برتری حاصل ہے۔ البتہ صدر اردوغان کی جماعت اے کے پی نے انقرہ اور استنبول کے انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ اے کے پی انتخابات کے نتائج کو استنبول اور مشرقی صوبے اگدیر میں بھی چیلنج کرے گی۔اے کے پی نے دعوی کیا ہے کہ ‘انقرہ کے 12 ہزار 158 پولنگ سٹیشنز میں سے بیشتر میں غلط ووٹ اور بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں’سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جماعت کے جنرل سیکرٹری فاتح ساحن نے کہا ہے کہ ‘ہم اپنے قانونی حق کا بھرپور استعمال کریں گے اورانقرہ میں ہم لوگوں کی مرضی کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ترک میڈیا کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے متحدہ امیدوار منصور یاوش انقرہ میں واضح انداز میں فتح یاب ہوئے ہیں اور انھوں نے صدر اردوغان کے امیدوار محمود اوژشکی کو شکست دی ہے۔ملک بھر میں رجب طیب اردوغان کی جماعت اے کے پی اور اس کی سربراہی میں قائم سیاسی اتحاد نے مقامی حکومت کے انتخابات میں 51 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔یہ پہلی بار ہے کہ گذشتہ 25 سال کی تاریخ میں حکمران جماعت کو انقرہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بی بی سی کے مارک لوون کا کہنا ہے کہ یہ شکست صدر اردوغان کے لیے ایک پریشان کن دھچکے کی صورت میں سامنے آئی ہے خصوصی طور پر اس بات کے پیش نظر کہ صدر اردوغان نے ان انتخابات کو ترکی کی بقا کے لیے بہت اہم قرار دیا تھا۔متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ازمیر جو کہ ترکی کا تیسرا بڑا شہر ہے اس میں بھی وہ فتح یاب ہوئے ہیں۔نتائج سامنے آنے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا کہ’اگر کہیں کوئی کوتاہیاں ہیں تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کو ٹھیک کیا جائے۔’ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی خامیوں کی نشاندہی کے لیے اپنا کام شروع کر دیں گے اور ان کو ٹھیک کریں گے۔‘ تاہم انھوں نے یہ واضح کیا کہ ان کی جماعت ہی انتخابات میں ‘سرفہرست’ ہے۔صدر اردوغان کا کہنا تھا ‘نتائج بتاتے ہیں کہ بحیثیت اے کے پی جماعت، ہم ہی ان انتخابات میں سرفہرست ہیں جیسا کہ 3 نومبر 2002 کے الیکشن سے ہوتا آیا ہے۔’ترکی میں نئے صدارتی نظام کے نافذ ہونے کے بعد اتوار کو پہلی مرتبہ مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات ہوئے ہیں جس میں صدر رجب طیب اردوغان کی جماعت کو مالیاتی بحران کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ترکی کی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں پونے چھ کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ترکی میں پونے چھ کروڑ سے زیادہ ووٹرز مقامی حکومتوں میں اپنے نمائندے منتخب کر رہے تھے۔ترکی میں سنہ 2017 کے ریفرنڈم میں نیا صدارتی نظام اپنایا گیا تھا۔ صدر طیب اردوغان کی جماعت انصاف پارٹی کو سنہ 2014 کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی تھی۔تاہم اس مرتبہ ترکی کی کرنسی لیرا کی قیمت گر جانے اور پھر اس کے بعد مالیاتی بحران اور افراطِ زر کی وجہ سے مہنگائی کے بظاہر نہ ختم ہونے والے سلسلے نے ان کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ترکی میں اس وقت مہنگائی کی شرح بیس فیصد بتائی جا رہی ہے جبکہ لیرا مالیاتی بحران سے پہلے کے دنوں کے مقابلے میں ایک تہائی قیمت کھو چکا ہے۔ترکی کی کرنسی کی قیمت گزشتہ برس اس وقت گری تھی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ترکی کی برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔’بہترین پارٹی‘ کی رہنما میرل اکشے نر سے جب ایک مقامی صحافی نے ووٹ ڈالتے وقت پوچھا کہ آپ کیا محسوس کر رہی ہیں تو انھوں نے کہا ’ایک اچھا نتیجہ آئے گا۔‘’ملیتِ حریت پارٹی‘ یا ایم ایچ پی کے رہنما دولت بحچلی جمہوری عوامی پارٹی کے رہنما کلیچ دار دولو نے انقرہ میں ووٹروں کو روک روک کر اپنے امیدوار کے لیے مہم چلائی ہے۔