رویت ہلال اور قمری کیلنڈر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 01, 2019 | 08:26 صبح

رمضان المبارک اور عید کا چاند دیکھنے کے حوالے سے ہمارے ہاں ہر سال فساد کی کیفیت ہوتی ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن کی سربراہی میں حکومت نے رویت ہلال کمیٹی بنا رکھی ہے، جس نے شریعت کے مطابق چاندکے نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ اور اعلان کرنا ہوتا ہے۔ اس کے سوا کسی کو ایسی کمیٹی کی تشکیل اور چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ اور اعلان کرنے کی اجازت اور اختیار نہیں مگر پشاور میں قاسم مسجد میں مولانا شہاب الدین پوپلزئی ہر سال سرکاری کمیٹی کے مقابلے میں نجی کمیٹی کا اجلاس بلاتے اور چاند نظر آنے کے حوا

لے سے شہادتیں اکٹھی کرتے ہیں۔ ایک سرکاری کمیٹی کے ہوتے ہوئے کوئی اور کمیٹی ریاست کے اندر ریاست اور حکومتی رٹ چیلینج کرنے کی مثال ہے، وہیں یہ حکومتی کمیٹی پر عدم اعتماد بھی ہے۔ آخر پوپلزئی کو ایسی کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

مولانا پوپلزئی کئی سال سے رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ رمضان المبارک کا آغاز کرنا اور سعودی عرب کے ساتھ ہی عید منانا چاہتے ہیں مگر انہوں نے کبھی اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ ان کی کمیٹی کی قانونی حیثیت نہیں لہٰذا اس پر بحث لاحاصل ہے۔ مگر مولانا کا وسیع حلقہ اثر ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔

مولانا خادم حسین رضوی ایک تقریر کے دوران کہہ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیامت تک کیلئے ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو‘‘ فرمان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنس اِدھر سے اُدھر ہو جائے اُلٹی سیدھی ہو جائے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اپنی جگہ قائم اور برقرار رہے گا۔ اس میں شک وشبہ کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ علمائے کرام امت کی رہنمائی کریں‘ اُس دور اور آج کے دور میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج دنیا کے ایک کونے میں چاند دیکھنے سمیت کوئی بھی واقعہ روپذیر ہو جائے تو چند لمحوں میں اس کی خبر پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ آج ایک جگہ چاند نظر آجائے تو رمضان المبارک کے آغاز اور عید منانے کے حوالے سے حدودوکہاں تک ہو سکتی ہیں؟ کیا دنیا کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آجائے توکیا روئے زمین پر ایک ہی روز رمضان المبارک کا آغاز ہو سکتا ہے اور ایک ہی روز عید منائی جاسکتی ہے؟؟

مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں کام کرنے والی سرکاری رویت ہلال کمیٹی اور مولانا پوپلزئی کی کمیٹی ایک ہی کام کرتی ہے، یہ لوگوں سے الگ الگ شہادتیں اکٹھی کرتی ہے، ان کی رو سے چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مولانا پوپلزئی کی کمیٹی کی قانونی حیثیت نہیں مگر وہ چاند دیکھنے کا اعلان کرتے ہیں تو لاکھوں لوگ یقین کرکے رمضان المبارک کا آغازکرتے اور عید مناتے ہیں، اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رمضان المبارک سے قبل پوپلزئی کی کمیٹی نے پچیس لوگوں کی گواہی کے بعد اعلان کیا، اسی روز مفتی منیب الرحمٰن کی سربراہی میں کمیٹی نے قوم کو بتایا کہ ملک کے کسی حصے سے چاند دیکھنے کی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ پوپلزئی کہتے ہیں، انہوں نے ان شہادتوں کے حوالے سے وزیر مذہبی امور نورالحق کو آگاہ کیا، انہوں نے مفتی منیب الرحمن کے ساتھ بات کرنے کا وعدہ کیا، وزیر صاحب نے مفتی منیب سے بات کی یا نہیں، اگر بات کی تو مفتی صاحب نے کس بنیاد پر ان کی بات کو پسِ پشت ڈالا۔ ہمیں بطور قوم بالعموم اور علماکرام کو ’’صرف میرا فرمایا ہوا ہی مستند ہے‘‘ کے زعم سے نکلنا ہوگا۔ کوئی بھی مسلمان چاند دیکھنے کی جھوٹی گواہی دے کر اپنی عاقبت کیوں برباد کرے گا؟؟

ہمارے ہاں رویت کمیٹیوں کے مابین ٹھنی ہوئی ہے۔ کئی سال سے فساد برپا ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر چودھری فواد حسین میدان کارزار میں اندھا دھند کو پڑے۔ چاند کے حوالے سے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بروئے عمل لانے کا اعلان کردیا۔ ان کی دانست میں یہ فساد ختم کرنے کی اچھی کوشش تھی مگر انہوں نے جو طریقۂ کار اختیار کیا‘ اس سے تیسرا فساد جنم لیتا نظر آرہا ہے۔ ان کے چاند کی پیدائش کے اور پانچ سال کیلئے ہجری کیلنڈر کے اجرا کے اعلا ن سے مذہبی حلقے اشتعال میں ہیں۔ وہ علمائے کرام کو اعتماد میں لے کر سارا کچھ کرتے تو علما ان کے ساتھ ہوتے۔ ہلال کمیٹیاں عرصہ سے چاند دیکھنے کیلئے دوربین جیسے جدید ذرائع استعمال کررہی ہیں، ٹیکنالوجی یہ کام مزید آسان بنا دے تو اعتراض کے بجائے وہ اظہار تشکر کرینگے۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے جس انداز سے ٹیکنالوجی کو لاگو کرنے کی بات کی‘ اس سے وہ ’’پوپلزئی‘‘ نظر آنے لگے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے، وہ علمائے کرام کو مقابل لانے کی بجائے ان کے ساتھ بیٹھیں اور ایک طریقہ کار طے کرلیا جائے، چاند کی پیدائش اور تکمیل کا سائنس کے ذریعے جائزہ لیا جا سکتا ہے، اس کی مدد سے کیلنڈر بھی بن سکتا ہے۔ مگر عید چاند دیکھنے سے مشروط ہے۔ وزیر صاحب علماء کو آگاہ کریں‘ سائنسی رو سے پیدائش کے بعد تکمیل پانے والا چاند غروب آفتاب کے بعد چند ثانیوں کیلئے ہی سہی، جغرافیائی لحاظ سے کن علاقوں میں نظر آسکتا ہے۔

ان علاقوں سے گواہیاں اکٹھی کرکے سرکاری طور پر اعلان کیا جا سکتا ہے۔ جس سے اتفاق کرنا ضروری ہے۔ اگر محض سرکاری کمیٹی سے اختلاف برائے اختلاف کی مد میں پوپلزئی یا کوئی دوسری نجی کمیٹی ایک روز قبل چاند دیکھنے کا اعلان کرتی ہے تو اس سے حکومتی رٹ پر زد پڑتی نظر آتی ہے اور مسلمانوں کے اس مذہبی تہوار کو بھی مشکوک بنادیا جائیگا۔ رویت ہلال ایک ذمہ دار کمیٹی ہے جس کے اعلان پر ملک بھر کے تمام مسلمانوں کے روزہ رکھنے یا عید منانے کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر یہ کمیٹی یا کوئی نجی کمیٹی چاند کا غلط فیصلہ کردیتی ہے تو اس سے رمضان المبارک میں طاق راتوں کا فرق پڑ جائیگا جس سے مسلمان یقیناً محروم ہو جائیں گے۔ کمیٹی پر یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں بہرصورت بڑی احتیاط برتی جائے۔