انصاف اور سچ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 25, 2018 | 07:22 صبح

صدر جنرل ضیاءالحق بادشاہوں کی طرح مضبوط اور طاقتور حکمران تھے۔جہاں چاہتے دربار لگا لیتے۔ایک دفعہ ایئر پورٹ پرڈپٹی اٹارنی جنرل ارشاد حسن خان کو دیکھاتوان کی طرف لپکے اورسوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔صدر شاید انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کا سوچ رہے تھے۔ عدالتوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ صدر کو شاید کوئی شکایت ملی ہو یا اخبارات میں کسی کی دل گرفتہ روداد پڑھی ۔ صدر نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کسمساتے ہوئے پوچھا ”عدالتوں میں سٹے پر سٹے کیوں دے د

ئیے جاتے ہیں ان سے سرکاری کاموں میں رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔“ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بڑے احترام سے جواب دیا ”سر! عدالتوں کی طرف سے حکم امتناعی قانوں کے مطابق ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر فوجی گورنمنٹ میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عدالتیں سرکار کے خلاف سٹے آرڈر دے دیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ صدر گورنر یا وزیر مشیر کسی کو نوازنے کے لئے یا کسی مستحق کی مدد کرنے کے لئے مکان دکان یا جائیداد الاٹ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کا اختیار ہو تو بھی ایک قانونی طریقہ کار ہے جس کا بڑے حکومتی عہدیداروںکو علم نہیں ہوتا جبکہ سٹاف کو علم ضرور ہوتا ہے مگر وہ خوف یا دباﺅ کے باعث خاموش رہتا ا ور آرڈر جاری کر دیتا ہے۔ ایسے معاملات کورٹ میں جاتے ہیں تو رولز ریگولیشنز اور پروسیجر کو فالو نہ کرنے پر حکم امتناعی دیدیا جاتاہے۔ رولز فالو ہونے پرسٹے ختم ہو جاتا ہے۔ میرٹ کی کارفرمائی ہی سٹے آرڈر کے خاتمے کا بہترین حل ہے۔ 
اس کے بعد صدر صاحب نے پوچھا ”مقدمات میں تاخیر کیوں ہوتی ہے، دس پندرہ سال میں بھی فیصلے نہیں ہوتے۔ سُنا جاتا ہے دادے کے مقدمے کا فیصلہ پوتے نے سُنا۔ لوگ فیصلوںکے انتظار میں راہی ملکِ عدم ہوجاتے ہیں۔“ اس پر بھی ارشاد حسن نے دلیل دیتے ہوئے کہا ”گاڑی نے لاہور سے گوجرانوالہ جانا ہے۔ اس میں 50 مسافر بیٹھ سکتے ہیںجبکہ سوار ہونے کی خواہش رکھنے والے ہزار ہیں۔ ڈرائیور صرف پچاس کو گاڑی میں بٹھا سکتا ہے۔ اس میں ڈرائیور گاڑی اور مسافروں میں سے کسی کا قصور نہیں۔ گاڑی تیز چلا کر اور کئی پھیرے لگا کر ہزار مسافروں کو دوسرے شہر پہنچایا جا سکتا ہے مگر ایک پھیرے کے بعد مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دوسرے دن صبح مسافر پھر اتنے ہی ہونگے جتنے پہلے دن تھے بلکہ پہلے دن سے بھی زیادہ ہی ۔ گاڑیوںکی تعداد بڑھادیں تو سارے مسافر ایک دن میں منزل پر پہنچ جائیں گے۔“ جنرل صاحب نے کہا کہ درست ہے ہم گاڑیاں بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں عدالتی سسٹم خامیوں اور خرابیوں سے پاک نہیں ہے، سٹے کی وبا اور فیصلوں میں تاخیر کئی دیگرخرابیوں اور خامیوں کے باعث بھی ہوتی ہے۔ ایک، صرف ایک انصاف کا نظام درست ہو جائے تو تمام معاشی ا ور معاشرتی بیماریوں کا سدِباب ہو سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کا ریڈیو پر انٹریو چل رہا تھا۔ وہ جاپان گئے تو پیشے کے اعتبارسے عدالتی نظام کا جائزہ لینے کی جستجو پیدا ہوئی ، وہاں کے عدالتی نظام کا جائزہ لینے جاپان کی سپریم کورٹ چلے گئے۔ وہاں کوئی گہما گہمی نہیں تھی۔ وکیل نظر آئے نہ سائل، چھٹی کا گماں گزر رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ورکنگ ڈے ہے، جج صاحبان موجود ہیں مگر کوئی کیس ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی کا اعزاز حاصل کر کے عالمی شہرت کے حامل جج رمدے ڈسٹرکٹ کورٹ جا نکلے۔ وہاں عدالت میںایک ہی کیس تھاجو آج ہی عدالت کے پاس آیا اور اسی روز بلکہ اسی وقت جج نے فیصلہ بھی سُنا دیا۔ مسٹر رمدے حیران ہوئے۔ ہمارے ہاں ایسے کیسز مہینوں چلتے ہیں۔ فوری فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا تو جج نے بتایا کہ ملزم نے تحریری طور پر اعترافی بیان دیا اور عدالت کے سامنے اس کی نفی نہیں کی تو مزید گواہوں اور دیگر پروسیجر کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ جاپان میں جلد فیصلوں کی سب سے بڑی وجہ لوگوںمیں سچ بولنے کی عادت ہے جبکہ ہمارے ہاں کسی بھی نوعیت کے کیسوںمیں شاید ہی ہزار میں ایک ملزم سچ بولتا ہو۔ ایک جج صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے سامنے قتل کے کئی مقدمات آئے ان میں سزائے موت سمیت سزائیں دیں مگر ایک بھی ملزم نے جرم کا اعتراف نہیں کیا تھا۔ 
جھوٹ ہماری رگ رگ اور روئیں روئیں میں بسا ہوا ہے۔ قوم کی رہنمائی کے دعویدار بھی جھوٹ کے کوہلو کے گرد گھومتے ہیں۔ ضمیر پر کبھی خلش نہیں ہوئی۔کرپشن قتل اوردیگر مقدمات میں سزائیں ہوتی ہیں مگر کسی نے اعتراف نہیںکیا۔ اُلٹا اپنی کرپشن کاجواز دوسروں کی کرپشن کی نشاندہی کر کے فراہم کرتے ہیں۔ سیاسی قیدی ہونا کارکنوںا ور رہنماﺅں کے لئے اعزاز، ان کا احترام جیل انتظامیہ ا ور ساتھی قیدی بھی کرتے ہیں۔ سیاسی قیدی خود سہولتیں طلب نہیںکرتے، جیل انتظامیہ استحقاق کے مطابق بہتر کلاس دے دیتی ہے۔ سنگین جرائم میں سزا پانیوالے مجرم کہلاتے ہیں۔ کریمینلز کے لئے سابق عہدے بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیس میں پھانسی دی گئی۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم رہے ان کے گلے میں سوتر کا دھاگہ باندھ کر 
پاﺅں کے نیچے سے تختہ نہیں کھینچا گیا۔
ہمارے ہاں جرا¿ت و بہادری سے جیل کاٹنے کے محض پھوکے فائر کئے جاتے ہیں۔ جیل جاتے ہیں گگھی بندھ جاتی ہے ۔گرمی حبس اور مشکلات دیکھ کر شاید دعا کرتے ہوں اللہ میاں ”چُک لے“ وہ تو آئی پر ”چُکا“ جانا ہے البتہ کمر میں چُک دل میں درد کے فسانے سنا کر ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں کیا زرداری ، نواز ، کیپٹن صفدر ، شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم جیسے سیاسی اکابرین اور انور مجید اور لوائی جیسے غیر سیاسی عمائدین سب شامل ہیں۔
ادھر ہم ان سیاسی اکابرین کے پیروکار دل میں دین اور وطن سے زیادہ ان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی محبت میں دوستیاں رشتہ داریاں بھی قربان کر دیتے ہیں ۔ ہم جیسا بخت ماراکون ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلوں کا مقدر سنوارنے کا حق صرف ہمارے دل میں بسے لیڈر کو ہے، دوسرا لیڈر پاکستان کے استحکام قوم کی بہتری اور ہماری نسلوں کی بقا کے لئے سوچے تو کیوں سوچے!
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے پہلے خطاب کے دوران جو پروگرام دیا اس میں کچھ اختلافی نہیں اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے عمران خان بدترین مخالفین کو بھی اپنا ممکنہ کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس ایجنڈے کی کامیابی نسلوں کی بقائ، قرضوں سے نجات اور ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہ پروگرام میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری نے پیش کیا ہوتا تو میرے جیسے لوگ دیانتداری سے اس کی تکمیل کے لئے جہاں تک ممکن ہوتا کردار ادا کرتے۔
عمرانی حکومت کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز مشکلات اور بحران ہیں ان سے آسانی کے ساتھ صرف اور صرف ایک عدلیہ کی سمت درست کرکے نمٹا جا سکتا ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے ظلم کا نہیں ، ظلم انصاف کی ضد ہے انصاف کی کارفرمائی معاشرے کو پستی سے اوجِ ثریا تک لے جا سکتی ہے۔ اس سے بھی آسان کلیہ سچ بولناہے۔مگر سچ بولنے کیلئے بھی جرا¿ت کی ضورت ہے۔ایک سچ تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے۔نبی کریم نے ایک نوجوان کو سچ بولنے کی نصیحت کی تو اس کی زندگی میں انقلاب آگیاتھا۔ ہمارے رگ و ریشے سے جھوٹ نکل جائے تو ہمارے ہاں بھی تھانے تحصیلیں کچہریاں سائیں سائیں کرتی نظر آئیں۔