برف کی آغوش میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 17, 2018 | 16:24 شام

عبادت کا درجہ کہلانے والی سیاست الزامات، جوابی الزامات اور کرپشن سکینڈلز سے گدلارہی ہے، سیاست کو شبنم اور دودھ کی طرح آلائشوں سے مبرا ہونا چاہئے، اسے مخالفین پر اُڑانے کیلئے دھول بنا دیا گیاہے۔ سیاسی اشرافیہ اندرونی و بیرونی حالات سے بے نیاز اپنے اپنے مفادات کا غبار اڑا رہی ہے۔ آئندہ الیکشن کے کیا نتائج ہونگے‘ وثوق کے ساتھ کوئی بھی کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔ 2013ءکے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی سیاسی مقبولیت بارش میں گرد کی طرح بیٹھ گئی تھی۔ آج عمران خان جس سیاسی مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ

رہے ہیں مسلم لیگ (ن) اس سیڑھی کے اوپری زینوں پر ہے۔ لگتا ہے نادیدہ قوتیں لیگی مقبولیت کو کچھ زینے نیچے لانے اور عمران کی مقبولیت کو کچھ زینے اوپر لے جانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ق لیگ کے مقبولیت سے خالی ہوئے غبارے میں بھی ہوا بھری جارہی ہے۔ ایم کیو ایم اپنا وجود کھو چکی ہے۔ پارٹیوں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے والی قوتیں ان کو پستیوں کی گہرائی میںگرانے سے کبھی قاصر نہیں رہیں۔آج مسلم لیگ ن اسی عمل سے گزرتی نظر آ رہی ہے۔
ہمارا ہر سیاستدان حب الوطنی کا دعویدار ہے اور اس میں شک بھی نہیں ہونا چاہئے اِلّا کوئی سیاستدان خود کو شیخ مجیب ثابت نہ کر دے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ آپ زندگی کے مشکل ترین دور سے گزرتے ہوئے بھی قومی مفادات سے صرفِ نظر نہ کریں۔ الیکشن سر پر ہیں، سیاستدانوں نے عوام کو اپنی طرف مائل کرنا ہے، یہ بہت ضروری ہے۔ اس سے بھی ضروری سرحدوں کے باہر سے پاکستان کیخلاف سازشوں کا ادراک اوراپنی حیثیت کے مطابق مقابلہ کرنا ہے۔ آج سیاسی اشرافیہ نے یہ میدان کھلا چھوڑ دیا ہوا ہے مگر خلا کسی نے تو پر کرنا ہے۔ میاں نواز شریف کوسپریم کورٹ نے آج آٹھ ماہ میں چوتھی بار نااہل قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں نااہلی کی مدت کے تعین کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نا اہل ہونےوالا شخص تاحیات نا اہل ہو گا۔ فیصلہ کے بعد سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر خان ترین ہمیشہ کیلئے نااہل ہوگئے۔ عدالت نے فیصلہ میں کہا ہے کہ جب تک اس ڈکلیریشن کےخلاف کوئی عدالتی فیصلہ نہ آ جائے تب تک یہ نااہلی رہے گی۔میاں نواز شریف نے اس فیصلے کو بھی انتقامی کارروائی اور کارکنوں کوکال کے انتظار کا کہا ہے۔لیگی کارکن صلح جو اور فاختہ صفت امن کے متوالے ہیں ورنہ بھٹو کی پھانسی پر جیالوں کی طرح دیوانہ وار بغیر کسی کال کے نکل آتے۔ جہانگیر ترین نے اس فیصلے پر آمنا و صدقنا کہاکیونکہ وہ پرامید ہیں کہ نظرثانی کی درخواست میں کلیئر ہو جائینگے جبکہ سرِدست میاں نواز شریف کی نااہلیت کے خاتمے کی سبیل نظر نہیں آتی
۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی میاں نواز شریف تاحیات نااہل رہیں گے؟ اس کا جواب مریم نواز شریف نے دیا جس میں وزن اور ماضی کا پَرتو بھی ہے۔ ”میاں صاحب کی نااہلیت اس وقت تک ہے جب تک یہ فیصلہ دینے والے عہدوں پر ہیں“۔ یہ سچ سہی مگر سرِدست میاں نواز شریف کی مشکلات ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کسی کیلئے کڑی دھوپ اور کسی کےلئے شجر سایہ دار ہے۔وقت ایک سا نہیں رہتا۔کڑے وقت کا سامنا کرنیوالے سرخرو ہوتے دیکھے ہیں۔کبھی تاج سر پر سجتاتو کبھی اچھلتاہے۔ یہ سب اسی صورت میں ہے کہ ملک قائم دائم ہے۔ کچھ سیاستدانوں کے غیر ممالک میں اربوں کھربوں کے اثاثے کاروبار اور اکاﺅنٹس ہونگے مگر وہ سیاست کے ذریعے پاکستان میں ہی اقتدار کی منزلِ مراد پر پہنچ سکتے ہیں۔....ع
موج ہے دریا میں ،بیرونِ دریا کچھ نہیں
اگر کسی کی یہ سوچ ہے کہ وہ نہیں توکچھ بھی نہیں۔ یہ کہ ملک اسکے دم قدم سے ہے۔یہ دُھند والی سوچ ہے۔کسی کو سیاست میں بام عروج تک لے جانے اور کسی کوگمنامی کی پستی میں گرانے کی کسی کی پلاننگ ہوسکتی ہے ۔مگر سب سے بڑا کارساز اوپر بیٹھا ہے۔اسکی اپنی ایک پلاننگ ہے جو شاید نیتوں کو دیکھ کر عمل میں آتی ہے۔جس کو ہم کہتے ہیں ”آوے ای آوے“ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں اسکی نیت صاف ہے،اس نے کبھی چوری نہیں کی ٹیکس نہیں چرایا،وہ قائد اعظم کی طرح دیانتدار اور شفاف کردار کا مالک ہے؟ایک طرف سیاست گرد و غبار سے اٹی اور دُھند میں لپٹی ہوئی ہے تو دوسری طرف سرحدوں کے باہر سے کوئی خیر کی خبر نہیں آرہی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکیت اور مظالم بڑھ رہے ہیں۔ ایل او سی پر جارحیت کے ارتکاب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی اشرافیہ ملکی سالمیت کو لاحق خطرات سے بے نیاز اپنے اپنے سیاسی ایجنڈے کو اگے بڑھانے میں سرگرداں ہیں۔ اسی طرح جغرافیائی سرحدوں کے نگہباں جن کے ذمہ اندرونی دہشت گردی سے نمٹنا بھی ہے وہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے بے نیاز اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہمارے کل پر اپنا آج قربان کئے دے رہے ہیں۔ ایسے شہدا کے لواحقین کو آنسوﺅں میں ڈوبی تقریب کے دوران اعزازات دئیے گئے۔ گزشتہ ہفتے برف میں برف ہونیوالے سپوتوں کی چھٹی برسی تھی جو ہماری گرد آلود سیاست میں دب کر گزر گئی۔
سات اپریل 2012ءکو دنیا کے بلند اور سخت ترین فوجی محاذ سیاچن کے گیاری سیکٹر پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ناردرن لائٹ انفنٹری کا بٹالین ہیڈ کوارٹر دنیا کی توجہ کا مرکزبن گیا۔ اچانک برف کا بڑا گلیشیئرہیڈ کوارٹر پر آگرا۔ پاک فوج کے کرنل سمیت 139 سپوت برف کے پہاڑ تلے دَب گئے ۔شہدا کے جسد خاکی نکالنا بھی بڑا مرحلہ تھا،کئی عالمی ٹیموں نے اس مقام کا جائزہ لیااور شہداکی میتیں نکالنے کیلئے کم از کم آٹھ سال کی مدت مانگی مگر پاک فوج نے یہ مہم خود سر کرنے کاعزم و ارادہ کیا۔سانسوں کو بھی جما دینے والی یخ بستہ سردی میں دن رات ایک کرکے صرف ڈیڑھ سال میں تمام شہدا کو نکال لیا گیا۔ غیر ملکی ٹیموں نے ساراکام مشینوں سے لینا تھا۔ مشینوں کے دل اور جذبات نہیں ہوتے۔ جو لوگ اس کام پرمامور ہوئے انکے دل ایسے جذبات سے معمور تھے کہ وہ کسی اور کے بجائے انہیں خود اپنے آپکوبرف کے بے رحم ہاتھوں سے نکال رہے ہیں۔ سیاچن میں اسی مقام پر شہدا کی یادگار بنائی گئی ہے۔ اس پر کرنل تنویرالحسن کی بیٹی کے اپنے شفیق باپ کی یاد میں رُلا دینے والے اشعار درج ہیں۔یہ بچی ان دنوں مڈل کی طالبہ تھی ....
ہم سرد ہوا کے باسی ہیں
غازی بھی ہیں شہید بھی ہیں
ہم کرنل کیپٹن میجر بھی
حوالدار لانس نائیک سپاہی بھی
ہم چھوڑ گئے دم توڑ گئے
ہم برف کی چادر اوڑھ گئے
بابا کی آنکھ کے تارے بھی
ہم ماں کے راج دلارے بھی
ہم بیٹے باپ اور بھائی بھی
ہم منا انکل اور ماہی بھی
ہم دور بھی ہیں، مجبور بھی ہیں اورزخموں سے ہم چور بھی ہیں
جب برف سے اٹھتے جائیں گے ہم جلدی لوٹ کے آئینگے
گزشتہ روزمیجر جنرل مقصود عباسی کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر بڑی سرگرم رہی۔ جو واقعی حیران کن اور امریکہ میں موجود پاکستان کے سابق سفیر کبڑے عاشق اور اس جیسے بہت سے آمادہ¿ فروخت لوگوں کیلئے سبق آموز ہے۔ میجر جنرل عباسی کو علاج کیلئے ڈاکٹروںنے مریکہ جانے کی تجویز دی۔انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں افواج پاکستان میں اہم ذمہ داریوں پر تعینات رہا ہوں۔ وہاں ادویات کے اثرات سے اہم راز افشا کرائے جاسکتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میں دھرتی کے رازوں کی قیمت پرعلاج کرا کے زندگی پاﺅں۔ 
ہماری سیاست میں اختلافات دشمنی کی حد تک چلے گئے ہیں۔کچھ نامراد توملک و قوم کے مفاد کی بھی پروا نہیں کرتے۔سیاستدانوںکے ایک دوسرے کیلئے جذبات شہدا کو برف سے نکالنے والوں کی طرح ہوجائیںتو سیاست دودھ اور شبنم جیسی رعنائیوں سے لبریزہوکرریاست کوجنت نظیر بنا سکتی ہے۔