رودادسفر!!

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 30, 2018 | 15:03 شام

بزنس کلاس کے چھ سیٹوں والے کیبن میں باقی چار مسافر ملتان سے سوار ہوئے سب کے ایک دوسرے کیلئے ایثار کے جذبات تھے ۔ رات کو تو زیادہ گپ شپ نہیں ہوئی ۔ صبح دو اڑھائی گھنٹے سیاست پر گرم گرم گفتگو ہوتی رہی جو یکطرفہ اسلئے تھی کہ کسی پوائنٹ پر اختلاف نہیں تھا۔ میزبانوں اور شادی کے واقف و ناواقف شرکا بھی کڑے احتساب کے حامی اور حکومت کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات رکھتے تھے۔ کسی ایک کو بھی احتساب کے باعث جمہویت خطرے سے دو چار ہوتی نظر نہیں آئی۔

ٹرین میں ملتان سے سوار ہونیوالے ملک عمران چھینا

نے بتایا کہ ملتان میں میٹرو بغیر کسی پلاننگ کے چلا دی گئی وہ اہم مقامات کو ٹچ نہیں کرتی اس لئے بس عموماً خالی رہتی ہیں جبکہ لاہور میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ملک عمران نے جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا ذمہ دار اس خطے سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم، صدر گورنرز اور وزرائے اعلی کو قرار دیا۔ یوسف رضا گیلانی کے دور کو وہ ملتان کی ترقی کا بہترین دور سمجھتے ہیں۔ جہانگیرترین کوداد دیتے ہیں کہ وہ بہترین آم اور کینو برآمد کر کے پاکستان کی ساکھ بہتر بنا رہے ہیں۔ ایک دوست شہباز اکمل تھے انکی زیتوں پر سٹڈی ہے انکی رائے تھی کہ سوانجنا زیتون کا بہترین متبادل ہی نہیں اسکے آئل کا ریٹ بھی دگنا ہے،اسکی کاشت پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے، تین سال میں اس پودے کی مکمل افزائش ہو جاتی ہے۔

لاہور سے چلنے والی ٹرین دوپہر بارہ بجے کراچی داخل ہوئی۔ڈیفنس میں رات کو ولیمہ تھا ۔ جاتے ہوئے گاڑیاں لانڈھی اور ڈرگ روڈ رکتی ہیں ۔ میجر شوکت کے کزن محمد علی علوی گلستان جوہر میں رہائش پذیر ہیں میں نے انکے ہاں جانا تھا۔ محمد علی نیوی کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ ہیں۔ محمد علی ایک بڑے نجی سکول میں سکیورٹی کمانڈر ہیں جو ممکنہ دہشت گردی کی صورت میں بچوں اساتذہ اور عملے کو بچائو کی تربیت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر کلاس روم میں تین دن محفوظ رہنے کا پانی و خوراک کی صورت میں بیک اپ ہے۔ رات نو بجے ہم لوگ ڈیفنس چلے گئے ۔کراچی میں شادی ہالز میں تقریبات کے اختتام کا وقت بارہ بجے ہے۔ پنجاب میں رات دس بجے شادی ہال خالی کرالئے جاتے ہیں۔ سندھ میں بارہ بجے تک ٹائم لوگوں کے حوصلے اور اعصاب کی آزمائش ہے۔ رات گئے ہم لوگ واپس چلے آئے اگلے روز دوپہر کو ڈیفنس جانا تھا اوبر اور کریم اطمینان بخش اور مناسب سروس ہے۔ نوجوان ڈرائیور نے بتایا کہ کراچی میں اب کوئی نوگو ایریا نہیں، امن بحال ہو چکا ہے، کراچی کی روشنیاں لوٹ آئی ہیں، ترقی کا سفر جاری ہے، دس سال سے اقتدار میں رہنے والوں کی نیتیں صاف اور کرپشن میں ملوث نہ ہوتے تو کراچی دگنا ترقی کر سکتا تھا۔ تجاوزات کیخلاف آپریشن کو عوام نے پسند کیا ہے، بڑی بڑی ناجائز مارکیٹیں گرا دی گئی ہیں، (نواز خان میرانی نے کراچی میں گرتی ناجائز مارکیٹیں دیکھ کر فون پر کہا کہ ایسا آپریشن لاہور میں کیوں نہیں ہوتا )۔ اب کراچی میںصفائی کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ ایم کیو ایم دفن ہو چکی ہے۔ قبضہ مافیادم توڑ گیا ہے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے اسکے حل ہونے کی امید بندھی ہے۔ پانی سے یاد آیا ٹرین کے واش روم میں لکھا تھا ’’یہ پانی پینے کے استعمال کیلئے نہیں ہے،، یہ عبارت پڑھنے کے بعد ٹرین کے باہر دیکھا ایک نہر میں بھینسیں نہا رہی تھیں اور ساتھ ایک شخص ہاتھوںسے پانی پی رہاتھا۔ ایسے لوگوں کیلئے ٹرین ریلوے سٹیشنوں کا پانی منرل واٹر سے کم نہیں ہے۔ میاں محمد بخش نے کہاتھا ؎ ’’ لوئے لوئے بھر لے کڑئیے جے گھڑا تدھ بھرنا‘‘یہ گھڑا کڑی نے کہاں سے بھرنا تھا کسی کنوئیں ، تالاب یا جوہڑ سے بھرنا تھا، ڈسپنسر یا منرل واٹر کے ٹینک سے نہیں۔

کراچی میں میرا قیام 28 گھنٹے کا تھا جبکہ سفر 40 گھنٹے کرنا پڑا۔ سعد رفیق کے بعد شیخ رشید ریلوے کوبہتر چلا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مزید دس ٹرینیں چلائی ہیں ناقدین کہتے ہیں کہ دیگر ٹرینوں سے دو تین بوگیاں اتار کر ٹرین بنادی جاتی ہے۔کراچی سفر کا سب سے ہولناک اور تشویش ناک پہلو ہنوز اعصاب پر سوار ہے ۔واپسی پر ایک ماڈرن فیملی بھی کمپارٹمنٹ میں سوار تھی ان کی گفتگو سے پتہ چلا کہ ان کا ایک بیٹا یورپ سے لوٹا جس کے کہنے پر انہوں نے گوشت کھانا اس لئے چھوڑ دیا کہ اسکے بقول یہ جانوروں پر ظلم ہے۔ وہ گائے، بھینس اوربکری وغیرہ کے دودھ کے استعمال کو بھی غیر انسانی سمجھتے ہیں کیونکہ اس پر صرف ان کے بچھڑوں کا حق ہے۔ قربانی پر ان کا فلسفہ بھی حیرانی اور پریشانی لئے ہوئے ہے کہ جانور ذبح کرنے کے بجائے اتنی مالیت کی خیرات کر دی جائے۔ سفر کو وسیلہ ظفرکہا جاتا ہے۔ مگر سفر سفر ہے تاہم ریلوے کا سفر اب محفوظ خوشگوار سستا اور آرام دہ ہے یہ دیکھنے کیلئے سفرشرط ہے۔

عمران حکومت کے سو دن پورے ہوئے، اس پر محبان اور متعصبان کی رائے میں بعد المشرقین ہے۔ حکومت کا کارنامہ کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد ہے۔ یہ جنرل باجوہ کی سوچ تھی۔ اس پر سکھ خوش جبکہ بھارت اور اسکے گماشتے تلملا رہے ہیں۔ اس کیلئے کرتارپور راہداری کو نگلا جا سکتا ہے‘ نہ اگلا۔ جنرل ضیاء خالصتان کا معاملہ جہاں چھوڑ گئے وہ بینظیر دور میں بہت پیچھے چلا گیا اور اب پھر! خالصتان تحریک میں پیش رفت آزادی کشمیر کی ضامن ہو گی۔ خالصتان بنتا ہے یا اس علاقے میں شورش سے بھارت کے مقبوضہ کشمیر تک رسائی کے تمام راستے بند ہو جائینگے۔