بھٹو دور : سیاہ یا روشن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 04, 2018 | 07:45 صبح

آج سے 41 سال قبل کی صبح مجھے یاد ہے جب میں چائے کیلئے ننکانہ صاحب کے بازار سے دودھ لینے گیا ‘ دکان میں ریڈیو پر فل آواز میں خبریں چل رہی تھیں۔ خاتون نیوز کاسٹر کہہ رہی تھی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ ان کو پاک فوج نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا۔ جنرل ضیاءالحق فوج کے لگائے مارشل لاءمیں چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ہونگے۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ کسی کیلئے خوشخبری اور کسی کے ارمانوں پر پانی پھرنے کے مترادف تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بیک وقت عوامی محبتوں اور نفرتوں کی داستا ن تھے۔

میں دودھ لے کر اس عارضی رہائش گاہ واپس آیا جو ہم چھ سات سٹوڈنٹس نے میٹرک کا امتحان دینے کیلئے کرائے پر لی تھی ۔ ان دوستوں کو اس روز کی بڑی خبر سے آگاہ کیا۔ ان دنوں بھی بورڈ کے اور دیگر امتحانات مارچ میں ہوتے تھے مگر پی این اے (قومی اتحاد نوستاروں کے اتحاد) کے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف گمراہ کن اور رسوا کن احتجاج سے غیرمعینہ مدت کیلئے امتحانات ملتوی ہوئے جو نظام مصطفی کے نفاذ کی دعویدارپارٹیوں اور بھٹو حکومت کے مابین مذاکرات سے حالات معمول کی طرف بڑھنے پر جولائی میں منعقد ہورہے تھے۔ اصغر خان کی تحریک استقلال سیکولر جماعت نہیں تھی لبرل ضرور تھی۔ ان دنوںنیشنل عوامی پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی بن کر قومی اتحاد کا حصہ تھی۔ اسکے نظریات الم نشرح تھے یہ بھی نفاذ نظام مصطفی کے پرچم لہرا رہی تھی۔ دل و جان سے اگر کوئی پارٹی نظام مصطفیٰ کے نفاذکیلئے کوشاں تھی تو وہ مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان تھی۔ تحریک کے دوران نظام مصطفی کا نعرہ بھی اسی پارٹی نے دیا جو دوسری اکثر پارٹیوں نے بھی بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کے ہتھیار کے طور پر اپنا لیا۔ ویسے تو انکی یگانگت کا یہ عالم نہ تھا اور آج بھی ایم ایم اے میں ہے۔ مولانا کوثر نیازی جنہیں ذوالفقار علی بھٹو مولانا وسکی کہا کرتے تھے۔ انہوں نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ بیان دیں کہ اگر نو جماعتوں کے سربراہ مولانا مفتی محمود کی امامت میں نماز ادا کریں تو وہ عہدے سے استعفیٰ دے دینگے۔ ان دنوں بھی اپوزیشن کی سب سے بڑی ڈیمانڈ وزیراعظم کے استعفے کی تھی جیسی گزشتہ ”فتوری“ دور میں اپوزیشن میاں نوازشریف سے کرتی رہی۔ میاں نوازشریف نے ایک جلسہ عام میں کہا تھا۔ ”میں انکے کہنے پر استعفیٰ دے دوں! یہ منہ اور مسور کی دال‘ برضا و رغبت استعفیٰ بھٹو نے دیا نہ نوازشریف نے دیا۔
بھٹو یہ بیان دینے میں متذبذب تھے۔ انہوں نے کہا مولانا ! یہ میرے استعفے کیلئے ایسا بھی کر گزریں گے....“ جناب شاہ احمد نورانی اپنا سرتو کٹوا سکتے ہیں ‘ مفتی محمود کی امامت میں نماز ادا نہیں کرینگے۔“ کوثر نیازی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔ بھٹو کے بیان پر اگلے روز شاہ احمد نورانی کی امامت میں قائدین نے نماز ادا کی۔ اسکی تصویر اخبارات میں بھٹو کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ شائع ہوئی۔ جواب میں مولانا کوثر نیازی نے کہا بھٹو صاحب اپنے قول پر قائم ہیں‘ مولانا مفتی محمود کی امامت میں مولانا شاہ احمد نورانی سمیت رہنما نماز ادا کریں۔ حالیہ رمضان المبارک میں متحدہ مجلس عمل پھر سے بارہ سال بعد زندہ ہورہی تھی۔ ایک افطاری کے بعد نماز کیلئے 3 جماعتیں کھڑی تھیں۔اس روز چینلز پر یہ تصاویر چلتی رہیںاور اگلے روز اخبارات میں شائع ہوئیں۔ مجلس عمل بارہ سال بعد زندہ ہوسکتی ہے تو ہمارا پیرکشتی کیوں کنارے نہیں لگا سکتا۔ بھٹو کے اقتدار کے دورانیے کو سیاہ دور کہنے والے کم نہیں جو چار اور پانچ کے جولائی1977ءکی شب کے مارشل لاءاقدام کو صبح نو کہتے ہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھٹو کے دور کو سنہری اور جنرل ضیاءکے اقدام کو جمہوریت پر شب خون اور آمریت کی طویل اور تاریک رات سے تعبیر کرتے ہیں۔ ادارے قومی تحویل میں لینے کی پالیسی کسی کے ارمانوں کا خون کر گئی تو کسی کی پستی کو بڑی ہستی بنا گئی۔ ہمارا اقبال ماڈل ہائی سکول بھی نیشنلائز ہوا تو یہ ہم دو سو کے قریب طلباءکو یخ بستہ ہواﺅں سے بچنے کی ایک سبیل تھی۔ نجی سکول کرائے پر تھا‘ مالک مکان نے خالی کرالیا‘ کلاسیں عارضی طور پر محکمہ انہار کے بنگلے میں ہونے لگیں۔ یہ سکول بھی قومی تحویل میں لیا گیا تو اساتذہ سرکاری سروس میں اور ہم اس بنگلے کے سامنے لڑکیوں کے سکول میں شفٹ ہوگئے جس کے پانچ میں سے تین کمروں کی چھت نہیں تھی۔ بچیکی کے لوگوں نے سکول کے شہر سے باہر ہونے کی بنا پر بچیوں کو سکول بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ اب گورنمنٹ اقبال ہائی سکول کو شہر بدر کردیا گیا ہے۔
بھٹو کی ادارے قومیانے کی پالیسی کی زد میں میاں نوازشریف خاندان کی اتفاق فاﺅنڈری بھی آگئی۔ میاں نوازشریف اسی بنا پر بھٹو کے شدید مخالف نظر آتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتفاق فاﺅنڈری قومی تحویل میں لئے جانے پر انکے خاندان کی معاشی حالت بری طرح بگڑ گئی تھی اور جب وہ ضیاءدور میں واپس ملی تو تباہ ہوچکی تھی۔ دوسری طرف چودھری شجاعت نے اپنی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ میں لکھا کہ انکی بھٹو دور میںقومی تحویل میں لی گئی فیکٹریاں ضیاالحق دور میں واپس ملیں تو منافع میں جارہی تھیں وہ اپنی جائیداد میں اضافے اور امارت کا سبب فیکٹریوں کی واپسی کو بھی قرار دیتے ہیں۔
بھٹو سے نفرت کرنےوالے انتہائی نفرت کرتے ہیں اور محبت کرنےوالے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ انکے کارنامے شمار کرائے جائیں تو حامیوں کے پاس اسکی طویل فہرست ہے۔ خامیاں بیان کرنیوالوں کے پاس بھی دفتر کے دفتر موجود ہیں۔ انتخابات کے دوران دھاندلی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بھٹو کے چاہنے والوں کا پلہ بھاری تھا۔ آج دیکھیں مقبول ترین سیاسی لیڈر بھی جیت کیلئے سرگرداں ہیں۔ سندھ سے صرف ایک ایم پی اے بلامقابلہ منتخب ہوا ہے۔ اُس دور میں بھٹو صاحب خود اور انکے وزرائے اعلیٰ نے بلامقابلہ منتخب ہونے کو اعزاز سمجھا اور ایسا دھونس سے کرانے کی کوشش کی۔انتخابات کے دوان بھی ہلڑبازی دیکھنے میں آئی۔یہ لذت بے گناہ ان کو اقتدار سے باہر لائی اور پھر پھانسی کے پھندے پر لے گئی۔
اسکے بعد ایک ایسا دور آیا کہ پاکستان پرو اور اینٹی بھٹو میں عوام تقسیم ہوگئے۔ میاں نوازشریف بھٹو کی قومیائی پالیسی کے زخم خوردہ تھے۔ سیاست میں آنے کا موقع ملا تو بھٹو مخالف طبقے کو ساتھ ملانے کی کامیاب کوشش کی اور نوے کی دہائی میں اینٹی بھٹو ووٹ کے بل بوتے پردو بار حکومت میں آئے۔ 
مشرف کے ”کو“ سے قبل تک پرو بھٹو ووٹ بے نظیر کے گرد جمع رہا۔ 97ءتک پرو اور اینٹی بھٹو کے مابین سیاست معلق ضرور نظر آتی ہے تاہم اس دوران ہونےوالے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس دور میں صرف فوج ہی کو اسٹیبلشمنٹ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مشرف دور میں میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد اینٹی بھٹو سیاست دم توڑ گئی جبکہ آصف علی زرداری بھٹو کے جانشین کے دعویدار کے طور پر سامنے آئے تو بے نظیر بھٹو کی موت کی ہمدردی اور حمایت بھی انکے حصے میں آئی۔ میاں نوازشریف 2008ءکے انتخابات میں پی پی پی کے مخالف نہیں تھے۔ پی پی پی اور ن لیگ اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ق لیگ کے بالمقابل تھی۔ بے نظیر اپنے آخری جلسوں میں کہا کرتی تھیں۔ پی پی پی کو ووٹ دو اگر ہمیں نہیں دینا تو مسلم لیگ ن کو دو۔ ”مشرف زدوں“ کو ہرگز نہ دیں۔
پی پی پی اقتدار میں آئی زمام کار زرداری صاحب کے پانچ سال ہاتھ میں رہی تو پارٹی کا اجاڑہ اور کباڑہ ہوگیا۔ ق لیگ سسکتی سسکتی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ کل وہ پی پی پی کے ہمقدم تھی تو آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہے کیونکہ تحریک انصاف نے خود کو پی پی پی کا متبادل ثابت کردیا ہے۔ گو میاں نوازشریف بھٹو کی طرح عوام میں بے پایاں محبت کی علامت اورشدید نفرت کا نشانہ نہیں ہیں مگر ان سے عمومی محبت اور نفرت کرنےوالے ضرور موجود ہیں۔ عمران خان کیلئے بھی عوام میں یہی کیفیت ہے۔ عمران خان مخالف ووٹ میاں نوازشریف کی طرف جارہا ہے جبکہ عمران خان نواز مخالف ووٹ کو اپنی طرف لارہے ہیں۔ ماضی میں عمران کے پرستار میاں نوازشریف کی محبت میں عمران کی ڈٹ کر مخالف کررہے ہیں۔ شخصیات سے محبت و نفرت کی سیاست قوم و ملک کیلئے سودمند نہیں ہوسکتی۔ نظریات کام کارکردگی اور شخصیات کے ذاتی کردار کو مدنظر رکھ کر حمایت کی جائے تو جمہوریت کی مضبوطی و استحکام کا باعث ہوسکتی۔ سیاست میں ہرصورت جیت‘ کسی بھی صورت جیت کا جنون اور خبط اقتدار کے ایوانوں سے سڑکوں اور تخت سے تختے پر لے جاسکتا ہے۔