شب برات، بخشش کی رات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مئی 01, 2018 | 16:17 شام

شب برا ت وہ مقدس رات ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ یعنی برکتوں والی رات کے نام سے ذکر کیا ہے اور یہ لیلۃ مبارکہ شعبان المبارک جیسے مہینہ میں واقع ہے ۔
شعبان المعظم اور شب برا ت کی احادیث مبارکہ اور روایات میں بہت زیادہ اہمیت و فضیلت آئی ہے، اس مبارک رات کے بہت سے نام ہیں اس کو ’’لیلۃ الصّک‘‘ یعنی دستاویز والی رات ، ’’لیلۃ الرحمۃ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات کے نام سے ب

ھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، بخشش و مغفرت اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے توبہ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس رات میں آئندہ سال کی اموات و پیدائش لکھی جاتی ہیں، اس رات میں ان کے رزقوں کی بھی تقسیم کر دی جاتی ،اس رات میں بندوں کے اعمال و افعال آسمان پر لیجائے جاتے ہیں اور اس رات میں اللہ تعالیٰ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر بندوں کو دوزخ کی آگ سے نجات عطا فرماتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جن میں کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں یعنی ضرور قبول ہوتی ہیں، (1)۔ شب جمعہ (2)۔رجب کی پہلی رات (3)۔ شعبان کی پندرہویں شب (شب براء ت) (4)۔ عید الفطر کی رات (5)۔ عید الاضحی کی رات۔حضرت صدیق اکبر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (شب براء ت ) کی شب آسمان دنیا کی طرف نزولِ جلال فرماتے ہیں اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے مشرک کے یا ایسے شخص کے کہ جس کے دل میں بغض ہو۔ 
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐنے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتاہے ؟ انہوں نے دریافت کی کہ یارسول اللہؐ کیا ہوتا ہے؟ 
حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ اس شب یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونیوالے ہیں وہ سب لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے اس سال میں مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس رات میں سب بندوں کے اعمال (سارے سال) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اتاری جاتی ہے۔ حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فہرست ملک الموت کو دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں ان کی روحوں کو قبض کرنا۔ کوئی بندہ تو باغوں کے درخت لگا رہا ہوتا ہے کوئی شادی کر رہا ہوتا ہے کوئی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓفرماتی ہیں کہ حضور اکرم ؐشعبان میں روزے رکھنے کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے، ایک مرتبہ میں نے آپ ؐ سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ ؐ نے جواب میں فرمایا کہ ! اے عائشہ جن لوگوں نے اس سال میں مرنا ہوتا ہے ملک الموت ان کے نام اس مہینہ میں لکھ لیتا ہے اس لیئے مجھ کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اگر میرا نام بھی اس فہرست میں جس وقت لکھا جائے اس وقت میں روزے کی حالت میں ہوں ۔ 
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ماہ رجب کی بزرگی باقی سب مہینوں پر ایسی ہے جیسی کہ تمام انبیاء کرامؑ پر مجھے بزرگی دی گئی ہے اور رمضان المبارک کی بزرگی باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی کہ تمام مخلوقات پر اللہ تعالیٰ کی بزرگی و عظمت اور فضیلت ہے۔ 
اس مبارک رات کو آتش بازی، کھیل تماشے کی نذر کرنا انتہائی بدبختی کی علامت اور ہندوانہ رسومات پر عمل پیرا ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت اور اس کی بے پایاں بخشش و مغفرت سے دور کرنے کے مترادف ہے۔