معاہدہ تاشقند کے 51 سال، بھٹو کے راز نوازشریف کے ثبوت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 08, 2018 | 06:25 صبح

معاہدہ تاشقندکو اکاون سال پورے ہو رہے ہیں۔ 1965ءکو پاک بھارت جنگ کے بعد 10 جنوری 1966ءکو پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ”معاہدہ تاشقند“ پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کے لیے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان 3 جنوری 1966ءکو اپنے سولہ رکنی وفد کے کیساتھ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین وزیر قانون منظور قادر اور وزیر تجارت غلام فار

وق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔ پاکستان اور بھارت کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیے‘ 7 دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہورہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔ مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیر اعظم کوسیجین نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انہیں بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتہ پر پہنچنے پر رضامند کرلیا۔ یوں 10 جنوری 1966ئکو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر اپنے دستخط ثبت کردئیے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں 5 اگست 1965ءسے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔ معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کے خاتمے کا سبب بن گئے۔ بھٹو نے تاشقند سے واپسی کے چند دن بعد طوفان اٹھا دیا‘ ان کے پاس معاہدہ تاشقند کے راز ہیں کہ صدر ایوب نے کس پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کا سودا کیا، جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ایوب کے خلاف غم و غصہ کی شدید لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ دوسری طرف شاستری کے خلاف بھی ان کے ملک میں شدید رودعمل کا اظہا ر کیا گیاجو ممکنہ طور پر ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ وہیں معاہدے کی رات کو آنجہانی ہو گئے ،ان کی موت کو قتل بھی قرار دیا گیا۔ معروف بھارتی صحافی کلدیپ نیئر ان دنوں شاستری کے پریس آفیسراور تاشقند میں موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ایک سوال جو آج بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا شاستری کی وفات فطری تھی یاانہیں قتل کیا گیا اُس وقت ان کی موت کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھائے گئے تھے سوائے اس کے کہ شاستری کی اہلیہ للیتا شاستری نے اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ ان کے شوہر کو زہر دیا گیا ہے۔ یہ بات انہوں نے تب کہی جب میں تعزیت کرنے ان کے ہاں پہنچا۔ زہر دینے کا سوال پہلی مرتبہ کئی سال بعد رکن پارلیمنٹ دھرم دیو شاستری نے لوک سبھا میں اٹھایا تھا۔ جب دھرم دیو نے لوک سبھا میں یہ بیان دیا تو ایوان میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سارے اراکین اسمبلی مزید تفصیلات کا تقاضا کر رہے تھے جس کے بعد ایوان میں اس معاملے پر وسیع بحث ہوئی اور ملک بھر میں بھی شاستری کی اچانک موت پر بہت چہ میگوئیاں ہوئیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بحث ابھی بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔مجھے یاد آتا ہے کہ میں تاشقند کے ہوٹل میں سویا ہوا تھا جب ایک روسی عورت نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا ”تمہارا وزیراعظم مر رہا ہے“۔ تاشقند کے اس ہوٹل میں بھارتی اور پاکستانی صحافیوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا جب میرے دروازے پر بڑے زور سے دستک ہوئی جس سے میں ہڑ بڑا کر جاگ اٹھا اور مجھے ایسے لگا جیسے خواب میں مجھے کوئی کہہ رہا ہے کہ شاستری فوت ہو گئے ہیں۔

میں ان چند لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے شاستری کے کمرے میں پہنچے جہاں ان کی میت بستر پر پڑی تھی۔ یہ ایک بہت وسیع کمرہ تھا جس میں ایک بہت بڑا بستر بچھا تھا۔ اس کے اوپر شاستری کا جسم سکڑا ہوا پڑا تھا جیسے ایک بڑے سے صفحے پر فل اسٹاپ پڑا ہو۔سوویت وزیراعظم اے این کو سیجن پہلے اس کمرے میں پہنچے جس کے بعد پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی تعزیت کے لیے پہنچ گئے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا ”وہاں وہ شخص پڑا ہے جو بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا تھا۔

 شاستری کے نجی اسٹاف کے لوگ دو کمرے چھوڑ کر ٹھہرے ہوئے تھے جن کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ شاستری نے رات کے وقت ان کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس ڈاکٹر کو بھیجیں جو دہلی سے ان کے ساتھ آیا تھا۔ اس پر ان کا نجی اسٹاف انہیں سہارا دیکر ان کے کمرے میں واپس چھوڑ گیا۔ شاستری کی وفات کے بعد جب ان کا ڈاکٹر کمرے میں پہنچا اور اس نے ایک لمبی سرنج ان کے دل میں چبھو کر دل کی حرکت جاری کرنے کی کوشش کی تو ناکام ہو گیا۔ اس پر ڈاکٹر نے کہا ”بابو جی‘ آپ نے مجھے موقع ہی نہیں دیا کہ کچھ کر سکوں“۔

کیا معاہدہ تاشقند سے انھیں اتنا صدمہ ہوا تھا؟ یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ معاہدے کے بعد جب انھوں نے پریس کانفرنس کی تو بھارتی صحافی سخت اشتعال میں تھے کیونکہ معاہدے کے تحت ہمارے کشمیر کی دو اہم چوکیاں حاجی پیراور ٹتھوال پاکستان کو واپس کر دی گئی تھیں۔ شاستری نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ وہ مجبور ہو گئے تھے کیونکہ سوویت یونین نے دھمکی دی تھی کہ سلامتی کونسل میں کشمیر پر جو قرارداد زیر التوا تھی اسے ویٹو کر دیں گے۔شاستری کو اس کے اہل خانہ کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جب پریس کانفرنس کے بعد وہ کمرے میں واپس آئے تو انھوں نے اپنے سیکریٹری سری واستوا کو کہا کہ وہ ان کے گھر ٹیلی فون ملائے۔ یہ ٹیلی فون شاستری کی سب سے بڑی بیٹی ک

±سم نے اٹھایا اور کہا کہ اسے اس بات کی بڑی ناراضگی ہے کہ حاجی پیر اور ٹتھوال کی دونوں چوکیاں پاکستان کو واپس دیدی گئی ہیں حالانکہ وہ ہمارے کشمیر کا حصہ تھیں۔ شاستری نے بیٹی سے کہا وہ اپنی والدہ کو فون دے۔ کسم نے کہا کہ ماں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ وہ چوکیاں واپس دینے پر ناراض ہیں۔شاستری نے کہا کہ اگر میرے گھر والے ہی اتنے ناراض ہو گئے ہیں تو دوسرے تو اس سے کہیں زیادہ خفا ہو نگے۔جہاں چوکیاں پاکستان کو واپس ہونے پر بھارتی میڈیا شاستری خفا ہوا وہیںگھر والوں کی طرح دل نے بھی شاستری کا ساتھ چھوڑ دیا۔

بھٹو کے سینے میں تاشقند معاہدے کے چھپے راز قبر میں ان کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔ تاہم ان سے تھوڑا سا پردہ ایوب کے وزیر قانون منظور قادر نے اٹھایا جو تاشقند میں پاکستانی وفد کا حصہ تھے۔ جسٹس (ر) آفتاب فرخ منظور قادر کے دوستوں میں سے ہیں وہ بتا رہے تھے ”شاستری اور ایوب کی گفتگو کے دوران بھٹو بار بار بول رہے تھے جس پر وزیراعظم کوسیجین نے ”شٹ اپ“ کہہ کر چپ کرا دیا جس پر ایوب نے بھی برا منایا اور اجلاس سے اٹھنے بھی لگے تھے کوسیجین نے معاملہ الجھنے سے بچا لیا۔ اجلاس کے بعد ایوب نے بھٹو سے کہا کہ جہاں روسی وزیراعظم نے آپ کے روئیے پر شٹ اپ کہا، فوجی وفد چند ماہ قبل چین گیا تو وزیراعظم چو این لائی نے اسے کہا کہ کیا آپ کو اپنے وزیر خارجہ پر اعتماد ہے؟ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ آپ کی لڑائی رہتی ہے کیوں نہ آپ کو فرانس میں سفیر لگا دیا جائے۔ اس پر بھٹو نے کہا کہ فرانس میں پاکستانی اعلیٰ شخصیات کی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے مجھے اٹاوہ کنیڈا میں تعینات کر دیں۔ ایوب خان نے کہا کہ وہاں محمد علی بوگرہ ہے تاہم دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو نے ایوب خان کو سندھ میں شکار کی دعوت دی اور خوب شکار کرایا۔ لاڑکانہ سے واپسی پر ایوب خان نے کہا او کے مسٹر بھٹو ہم اوٹاوہ خالی کرا رہے ہیں۔ بھٹو کی وزارت خارجہ لرزی تو راز راز کی گردان شروع کر دی۔

اب میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پردے کے پیچھے کارروائیاں نہ رکیں تو سارے ثبوت سامنے لاﺅں گا۔ گویا ان کے خیال میں پس پردہ ہونے والی کارروائیاں رک جائیں تو وہ اپنے سینے میں راز دفن رکھیں گے۔ آصف علی زرداری نے بھی جنرل راحیل شریف کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے کہا تھا پاکستان بننے سے اب تک کی فہرست جاری کریں گے جس سے جرنیلوں کا کچا چٹھہ سامنے آئے گا اور پورا ملک ہل جائے گا۔ زرداری صاحب کی وہ لسٹ اب تک سامنے نہیں آئی۔ میاں نواز شریف کو ان کے تھوڑے سے راز اور ثبوت سامنے آنے پر نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ساتھ بہت کچھ ہو چکا۔ سر سے ہما اڑا، سرخاب کے پَر جھڑ گئے۔ اس سے زیادہ کیا ہو گا۔ ایسا کرنے والوں کے ساتھ رعایت کیسی؟ ان کو بے نقاب کریں ننگا کرکے رکھ دیں۔ ایسا کرنے سے بحالی ہو سکتی ہے تو اور کیا چاہئے۔ اچھلتے اور بے قرار ہوتے ثبوت سر محفل لائیں مگر جوابی ثبوتوں کی تاب کا حوصلہ ہے؟ جن کے خلاف ثبوت میں کیا ان میں کسی کی غداری کا بھی ہے؟

ویسے اگر ایسے ثبوت ہوتے تو کب کے سامنے آ چکے ہوتے۔ بھٹو کے تاشقند کے رازوں کی طرح میاں صاحب کے ثبوتوں کی بھی وہی حیثیت ہے جو خود ان کے خلاف کینیڈا کے جی این آئی نیوز چینل کی جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے۔

کرپشن میں ملوث گرفتار سعودی شہزادوں نے3 ممالک کے وزرائے اعظم جن میں پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف، بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا اور لبنان کے موجودہ وزیراعظم سعد حریری کے خلاف ناقابل تردید کرپشن کے ثبوت فراہم کر دئیے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ نواز شریف، خالدہ ضیا اور سعد حریری منی لانڈرنگ اور رشوت کی رقم دیگر ممالک میں چھپانے کے جرم میں ملوث ہیں۔ میاں صاحب نے سعودی شہزادے کو بھیجے گئے 3 ارب ریال مشروط طور پر واپس کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔

جہاں ایک بار پھر بھٹو کا تذکرہ مگر اس وقت اب جو انہوں نے کہا وہ جعل سازی نہیں ایک حقیقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹونے قتل کے مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں آخری تقریر کرتے ہوئے کہا ”میرے سینے میں بڑے راز ہیں مگر میں ان کو افشاءکرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں قومی راز افشاءکرنے کی بجائے موت کو ترجیح دوں گا“۔ قومی لیڈر کا سینہ رازوں کا امین ہوتا ہے‘ میاں صاحب!

آج ہمارا سب سے بڑا المیہ لیڈر شپ کی اس کے کردار سے قطع نظر تقلید اور تحریم ہے ہمارے لئے ہمارا لیڈر قومی ملکی مفاد سے برتر اور عقائد سے بالاتر بھی ہے۔ جہاں شاستری کی بیوی کا حوالہ دینا بھی بے محل نہ ہو گا جس کی نظر میں اس کے خاوند نے قومی مفاد کے برعکس معاہدے پر دستخط کئے تو اس نے فون سننے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ مرتا نہ تو شاید اسے گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیتی یا خود گھر چھوڑ جاتی۔