سانحہ کرائسٹ چرچ: نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے متاثرہ خاندان سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کردیا ، پوری دنیا داد دینے لگی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 12, 2019 | 19:05 شام

ویلنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور فوجی طرز کے نیم خودکار آتشیں ہتھیار رکھنے پر پابندی کے قانون کی منظوری دے دی ہے اور اس قانون کاآج ( جمعہ سے) ملک میں اطلاق ہوجائے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق پارلیمنٹ نے یہ قانون گذشتہ ماہ کرائس چرچ کی دو مساجد میں ایک آسٹریلوی دہشت گرد کی اندھا دھند فائرنگ سے پچاس نمازیوں کی شہادت کے بعد منظور کیا ہے۔ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس قانون پر بحث میں لیتے ہوئے کہاکہ میں نے اس قتل عام کے بعد کسی وسیع طرح مشاورت کے بغیر ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا

کہ حکومت کو اس ضمن میں کوئی اقدام کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ مجھے پولیس کمشنر نے بریفنگ کے دوران میں حملے میں استعمال ہونے والے اور قانونی طور پر حاصل کردہ ہتھیار کے بارے میں بتایا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ قانونی طور پر حاصل کردہ ہتھیار اس طرح کی تباہی پھیلاسکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا موجب ہوسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ عوام یا دہشت گردی کے اس حملے کے متاثرین کا سامنا نہیں کرسکتی تھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر انھیں یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ یہ ہمارا نظام اور ہمارے قوانین ہی ہیں جنھوں نے ایسی بندوقیں رکھنے کی اجازت دی تھی۔اس نئے قانون کے تحت نیوزی لینڈ کے 1983ء سے نافذ العمل بندوق پر پابندی کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس قانون میں پہلے بھی بہت سی ترامیم کی جا چکی ہے۔اس قانون کی صرف ایک جماعت ایکٹ پارٹی نے مخالفت کی ہے۔نیوزی لینڈ کی 120 ارکان پر مشتمل پارلیمان میں اس جماعت کی صرف ایک نشست ہے۔نئے قانون کے تحت حکومت شہریوں یا ڈیلروں کے پاس موجود نیم خودکار آتشیں ہتھیاروں کو واپس خرید کرے گی۔شہریوں پر ایسے ہتھیار رکھنے پر پابندی ہوگی۔ جو کوئی اس کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا،اس کو دو سے دس سال تک قید با مشقت کی سزا دی جائے گی۔ حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت 30 ستمبر 2019ء تک شہری اپنے آتشیں ہتھیار حکام کو واپس جمع کراسکتے ہیں اور کی قیمت وصول کرسکتے ہیں۔منظور کردہ نئے قانون کے تحت نیم خودکار ہتھیاروں ، میگزین اور ممنوعہ ہتھیاروں کو جوڑنے میں کام آنے والے آلات اور پرزوں کے رکھنے پر بھی پابندی ہوگی۔اس قانون کی اب صرف شاہی منظوری درکار ہے اور بالعموم ایسے قوانین کی شاہی توثیق کر ہی دی جاتی ہے۔واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں یہ بل یکم اپریل کو متعارف کرایا گیا تھا اور اس کی محض دس روز میں منظوری پر گن پر کنٹرول کے مؤیدین بھی حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔