جیپ ریلی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 21, 2018 | 07:27 صبح

میں‘ شعیب مرزا اور افتخار خان دلوش سٹیڈیم ڈیراوڑ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے دھول اور غبار نے استقبال کیا۔ ہوا تیز تو نہیں تاہم اتنی ضرور تھی جس میں قطار اندر قطار اور بے شمارقومی پرچم جوبن پر لہرا رہے تھے۔ ایسے میں کوئی گاڑی یا بائیک فراٹے بھرے بغیر بھی گزرتی تو اس سے اٹھنے والے بگولے اور مرغولے گرد میں نہلائے دیتے تھے۔ ہمیں فوری طور پر صوبیدار رشید اپنی سکیورٹی ٹیم کے ساتھ سٹارٹنگ پوائنٹ پر لے گئے۔ جہاں دو گاڑیاں ریس کیلئے تیار انتظامیہ اور تماشائیوں میں گھری کھڑی تھیں، اسی دوران میگ

ا فون پر آواز آئی۔’’ لاسٹ منٹ، ون ٹو تھری گو‘‘۔ اسکے ساتھ ہی گاڑی کے انجن کی گڑگڑاہٹ تھی اور جیپ گولی کی سی تیزی سے خاک اُڑاتی نکل گئی۔ سامنے ٹی ڈی سی کی ٹیم بیزار اور اوازار بیٹھی تھی جبکہ ان کا افسر اسجد فعال اور متحرک تھا، اس روز چیف گیسٹ ایڈیشنل چیف سیکرٹری عمر رسول تشریف لائے تھے۔ اپنے عہدے ایڈیشنل کی مناسبت سے ایڈیشنل گیسٹ بھی ساتھ لائے تھے۔ جیپ جونہی نکلی ہمیں گائیڈ نے بتایا۔’’ ابھی رانی پٹیل کی گاڑی نکلی ہے‘‘۔ اس پر افسوس ہوا کہ آتے ہی رانی پٹیل کی گاڑی کو نکلتے اور رانی پٹیل کو بھی دیکھ لیتے۔ رانی پٹیل کا نام سُن کر تعجب و خوشی کی کیفیت اور ٹی ڈی سی پی کی کمال سفارتکاری پر فخر ہواکہ انڈیا سے بھی کوئی اس ریلی میں شریک ہے۔یہ شاید رانی مکھر جی کے خاندان سے ہو۔رانی پٹیل کے بعد اس روز ایک اور گاڑی گئی۔اسکے بعد سٹارٹنگ پوائنٹ سے ذرا پیچھے آئے جہاں ٹی ڈی سی پی کے بڑے افسر نے خواتین کو بریفنگ دینے کا اعلان کیاخواتین پانچ چھ تھیں اس لئے حضرات کی شرکت کی گنجائش بھی نکل آئی۔ یہاں سوال جواب بھی ہوئے زیادہ سوالات عمررسول نے کئے اور کئی کے جواب بھی خود ہی دیئے۔ایک سوال میں نے بھی کیا۔جواب پر مایوسی ہوئی۔انڈیا سے کوئی بھی ریلی میں حصہ لینے نہیں آیا تھا۔جس نے رانی پٹیل کابتایا تھا اس نے وضاحت کی کہ رانی پٹیل پاکستانی نوجوان ہے تاہم اس ریس میں خواتین کی کیٹگری میں پہلے نمبر پر آنیوالی لڑکی کا نام تشنا پاٹیل ہے۔اس ریس میں تشنا سمیت تین خواتین نے حصہ لیا۔عاصمہ صدیقی اور مومل خان نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ریس میںدو تھا ئی لینڈ 1 کینیڈا ‘1 انگلینڈ کے ڈرائیو ر نے بھی حصہ لیا۔
جیپ ریلی کے تیسرے روز 57 گاڑیوں نے ریس لگائی۔ ان میں سے صرف پچیس ہی مقررہ وقت میں 210 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر پائیں۔اس دن پہلے نمبر پر نادر مگسی دوسرے پر صاحبزادہ سلطان 45 سیکنڈ کے فرق سے آئے۔ سینیٹر سعود مجید کے بھی پہلے دوسرے نمبر پر آنے کا امکان تھا ان کو ایکسپرٹ ڈرائیور مانا جاتا ہے۔ وہ اس ریلی کے بانیوں میں سے ہیں مگر انکی گاڑی کی دو قلا بازیاں لگ گئی جس وجہ سے وہ زخمی ہوئے اور ریس سے باہر بھی ہو گئے۔
ریس والی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ نیوی گیٹرہوتا ہے۔ جیب ریلی ٹی وی چینلز پر دکھائی جانیوالی ورلڈ ٹورنگ کار چیمپئن کی طرح نہیں ہوتی۔اُس میں گھڑ دوڑ کی طرح بیک وقت گاڑیاں دوڑائی جاتی ہیں۔جیپ ریلی میں ایک گاڑی کی روانگی کے 4 منٹ بعد دوسری اور اسکے اگلے 4 منٹ بعد تیسری اور اس ترتیب سے اگلی گاڑیاں چلتی ہیں۔ کم سے کم وقت میں مقررہ فاصلہ طے کرنیوالا سکندر قرار پایا ہے۔ اس مرتبہ نادر مگسی پہلے اور صاحبزادہ سلطان دوسرے نمبر پر آئے۔پہلا انعام اڑھائی لاکھ تھا جبکہ ریس کے شوقین کروڑوں میں اخراجات کرتے ہیں۔ سٹارٹنگ پوائنٹ تو سٹیڈیم کے ساتھ ہی ہے جبکہ فنشنگ پوائنٹ سات کلومیٹر ڈیزرٹ میں بنایا گیا ہے۔سٹیڈیم بھی کیا ہے۔ صحرائی ایریا کی ایک سائیڈ پر چند گز کی دو تین فٹ اونچی دیوار ہے‘ میدان کو ریلی کے دنوں میں پرچموں اور فلیکسوں سے سجا دیا جاتا ہے۔یہ تیرہویں ریلی تھی۔ اس ریلی کا انتظام و انصرام پنجاب حکومت کے محکمہ سیاحت کے عزم صمیم کا شاہکار ہے۔ جس طنطنے اورطمطراق کے ساتھ پہلی بارریلی منعقد ہوئی۔تیرہ سال میں یہ ایک قدم بھی آگے نہیں گئی۔ ویسے یہ ریلی ٹی ڈی سی پی کراتی ہے مگر اس میں وہ جو دلچسپی لیتی اور اخراجات کرتی ہے اسے دیکھتے ہوئے اسے ٹی ڈی سی پی کی منہ بولی ریلی کہا جا سکتا ہے۔ 
ہوبارہ فائونڈیشن کے میجر طاہر مجید کیساتھ گذشتہ سال بہاولپور سے رحیم خان کا سفر کیا، قلعہ دراوڑ سے آگے ڈیزرٹ میں بھی انہوں نے فور ویل گاڑی خود ہی چلائی تھی، ڈیزرٹ میں مشاق اور ماہر ڈرائیور ہی گاڑی چلا سکتے ہیں۔ ان سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ وہ جیپ ریلی کے بانیوں میں ہیں۔ انکے مطابق جیپ ریلی کا آئیڈیا ٹی ڈی سی پی نے دیا تھا جیسے ہوبارہ فائونڈیشن نے مقامی حکومت کیساتھ مل کر عملی شکل دی۔ میجر طاہر اور ای ڈی او فنانس راحیل صدیقی نے شبانہ روز محنت سے یہ ایونٹ ممکن بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ریلی کے بارے کوئی خاص معلومات تھیں نہ خاطر خواہ لٹریچر دستیاب تھا۔ بس کام شروع کر دیا، خود سے قواعد و ضوابط بنائے انتظامات کئے۔ ٹریک مارک کیا ۔ فوج نے کمیونیکیشن سسٹم فراہم کیا یوں پہلی ریلی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ہم نے دیکھا کہ تیرہویں ریلی بھی پہلی ریلی کی طرح، انہی قواعد اورانتظامات پر ہوئی۔سوفٹ ویئر کے جدید دور میں بھی مینوئل سسٹم کارفرما ہے۔شائقین کیلئے دوچارسکرینوں کا اہتمام بھی ندارد۔ 
ریلی میں حصہ لینے اور دیکھنے کیلئے لوگ ملک کے ہر کونے سے آتے ہیں۔ قلعہ دراوڑ اور اردگرد کے علاقوں میں میلے کا سماں ہوتا ہے۔ بریفنگ کے دوران اسجد نے بتایا کہ آج بھی پانچ سے چھ لاکھ تماشائی موجود ہیں۔ اس پوائنٹ پر تو اتنے لوگ نہیں تھے تاہم ریس ٹریک کے ٰ400 کلومیٹر کے پوائنٹس پر اتنی تعداد موجود تھی۔ ریلی کے باعث جہاں چند روز میں کروڑوں کا بزنس ہوتا ہے۔ صحرا میں ریلی کے شرکاء کے خیمے عجب سماں پیش کرتے ہیں۔ انکے حامی ڈھول تاشے کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ قلعہ دراوڑ کی طرف آنیوالی سڑکوں پر عارضی دکانیں اور ہوٹل کھل جاتے ہیں۔ سٹیڈیم کے گرد ریلی کے شرکاء اور تماشائیوں کیلئے ضرورت کی اشیاء دستیاب ہیں۔ 
فجی ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اسکی پوری معیشت کا انحصار سیاحت اور گنے پر ہے۔ مڈغاسکر کی ترقی و خوشحالی کا سبب بھی گنے کی پیداوار ہے۔ پاکستان وسائل سے معمور ملک ہے۔ ہمارے ہاں نمک کی مصنوعات سے 50 ارب ڈالرسے زائد کی برآمدات ہو سکتی ہیں۔ ٹورازم معیشت کو آسمان کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔بس …ع
ذرا نم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی 
ہم ہوبارہ فائونڈیشن کے مہمان تھے۔ رحیم یار خان میں ٹھہرے تھے۔ دراوڑ قلعہ تک صحرائی راستے سے ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ مین روڈ دو شوگر ملز کی وجہ سے کئی دنوں سے بند تھی، متبادل سڑک بھی بُری نہیں ہے۔ اس پر ایشیاء کی سب سے بڑی حمزہ شوگرمل ہے جہاں بھی ٹریفک بلاک رہتی ہے ہمیں دو بار اس راستے سے جانا آنا پڑا تھا۔ یکطرفہ راستہ ڈھائی کے بجائے پانچ گھنٹے میں طے ہوا۔ یہ سفر کیا ایک مہم جوئی تھی۔ میلوں گنے کی ٹرالیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔بسیں، ٹرک اور کاریں متبادل کچے راستوں، نہر اور سیم نالے کے کناروں اور کھیتوں سے ہوتی ہوئی اپنی منزل کی جستجو میں نظر آتی ہیں۔کئی حادثات سے دوچار ہو جاتی ہیں۔گنے کی بے قدری کوئی یہاں دیکھے۔بدترین ٹریفک جام، ایسی ستمگری لاہور کے اردگرد ہو تو خادم اعلیٰ ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جائیں۔ جنوبی پنجاب والے محرومی پسماندگی اور نظر انداز کئے جانے کا رونا درست روتے ہیں۔ ایک طرف شوگر ملز پر گنے کا اتنا دبائو کہ راستے بند ہیں دوسری طرف ساتھ ہی تین ملیں بند پڑی ہیں۔ ان پر غیر قانونی طور پر اس علاقے میں منتقلی کا الزام ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اس بدترین بحرانی حالت میں یہ ملیں کھول دی جائیں۔ مزید ملیں لگانے کیلئے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ فجی اور مڈغاسکر کی طرح گنے کی بمپر کراپ سے استفادہ کرکے معیشت کو مضبوط تر بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک ہم پر مہربان ہے مگر ہم خود اپنے حق میں نامہربان ثابت ہوئے ہیں۔ ہم سے گندم ، گنے ، چاول اور کپاس سمیت نقد آور فصلیں نہیں سنبھالی جا رہیں۔ 
جیپ ریلی سے بھی اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ ریلی کو بہترانداز میں منظم کرنے کی بڑی گنجائش ہے۔ ٹی ڈی سی پی کو ہوبارہ، ٹویوٹا اور ڈیو کا تعاون حاصل ہے۔ ریلی سے علاقے میں ترقی و خوشحالی کے نئے ریکارڈ بن سکتے ہیں۔ دراوڑ پہنچنے سے قبل ایک تصور تھا کہ وہاں ٹی ڈی سی پی کے قابلِ رشک انتظامات ہوں گے۔جرنلسٹ انکلوژر بنا ہوگا، تیرہ سال میں کم از کم تیرہ بڑے ہوٹل تو بنے ہونگے۔ ہزاروں لوگوں کے قیام کیلئے سہولتیں ہونگی مگر وہاں رنگا رنگ جھنڈوں اور فلیکسوں کے سوا کچھ نہیں تھا وہ بھی سپانسرز نے لگوائے تھے۔ہوبارہ فائونڈیشن میلنز کی ڈونر ہے مگر اپنی تشہیر کو مناسب نہیں سمجھتی۔ایک مشروب ساز کمپنی کی ایڈ شرمناک تھی، ایک قومی لیول کے ایونٹ میں ایک انڈین لم چوہی اداکار کے جہازی سائز پوسٹر لگائے گئے تھے۔ 
امید تھی مقامی لوگوں کیلئے ٹی ڈی سی پی مستقل نہ سہی عارضی میڈیکل کیمپ ہی لگا دیگی۔ٹی ڈی سی کے کنٹرول میں دراوڑ قلعہ ویرانیوں کی داستان ہے یہ ٹورازم کیلئے سونے کی کان ثابت ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی روایتی ٹوٹے پھوٹے قبرستان میں 4 صحابہ کرامؓ سے منسوب قبریں ہیں مگر انکے ساتھ مسجد تک نہیں ہے۔ ان قبروں کی کبھی تشہیر نہیں کی گئی۔