نکاح نامے میں طلاق کا خانہ : خواتین کے لیے ایک اچھی خبر آگئی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع جنوری 29, 2017 | 06:12 صبح
لاہور (شیر سلطان ملک) پاکستان میں مسلمان عورتوں کے نکاح کے موقع پر انہیں نکاح نامے میں طلاق کا حق تفویض کرنے کے سلسلہ میں پنجاب میں اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔ ابتدائی طور پر سب سے زیادہ آبادی والے صوبہٴ پنجاب میں نکاح کا اندراج کرنے والے علماء کرام و دیگر لوگوں کے لیے تربیت کا اہتمام کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ان حقوق کا تحفظ کریں، جو شادی کی صورت میں خواتین کو ملتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام میں مرد کی جانب سے ایجاب اور عورت کے قبول کرنے کے عمل کو نکاح کہتے ہیں، جس کا وہ اپنی مرضی اور رضا مندی سے باہمی طور پر اعلان کرتے ہیں۔ نکاح عورت کے حقوق کو تحفظ دینے اور اسے یقینی بنانے کا نام ہے۔
عائلی قوانین کے ماہر شفقت اللہ کے مطابق پاکستان میں نکاح نامہ فارم پر 25 شقیں ہوتی ہیں۔پہلی بارہ شقیں دلہا دلہن کے کوائف پر مشتمل ہیں۔ شق نمبر 13 تا 16 حق مہر سے متعلق ہیں۔ حق مہر لڑکی کا حق ہوتا ہےمگر کہہ دیا جاتا ہے کہ شرعی حق مہر لکھ دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ 5 ہزار لکھا جاتا ہے۔ شق نمبر 17 کسی خاص شرط کے بارے میں پوچھتی ہے۔ شق نمبر 18 یہ ہے کہ آیا شوہر نے طلاق کا حق بیوی کو تفویض کر دیا ہے، اگر ہاں تو کن شرائط کے تحت۔ شق نمبر 19کہتی ہے کہ آیا شوہر کے طلاق کے حق پر کسی قسم کی پابندی لگائی گئی ہے؟ شق نمبر 20 میں سوال ہے کہ آیا شادی کے موقع پر نان و نفقہ، بیوی کے ماہانہ خرچے وغیرہ سے متعلق کوئی دستاویز تیار کی گئی ہے۔ شق نمبر 21 اور 22 مرد کی عائلی حیثیت اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں پہلی بیوی سے اجازت سے متعلق ہے۔ باقی دو شقوں میں نکاح خواں اور شادی کے اندراج کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ جہاں باقی شقوں کے آگے تفصیلات لکھی جاتی ہیں، وہاں 13 تا 22 نمبر شقوں پر لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ یہ سب شقیں خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں اور انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
اس تربیت کا مقصد نکاح کے عمل میں شامل سرکاری عملے کو ایسے قوانین اور ان میں تبدیلیوں سے آگاہی فراہم کرنا ہے، جوخواتین کے حقوق سے متعلق ہیں تاکہ وہ نکاح کے وقت ان کا خیال رکھیں۔تربیت میں شامل قوانین پیدائش کے اندراج، وراثت، مسلم فیملی لاز، کم عمری میں شادی اور خواتین کے تحفظ سے متعلق ہیں۔پنجاب میں تحفظ حقوق نسواں ایکٹ 2015ء کے مطابق نکاح رجسٹرار کو نکاح نامے کے تمام کالم پُر کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ کالم چھوڑ نے کی صورت میں 3 ماہ قید جبکہ1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائےگی۔ پہلی بیوی سے بغیر اجازت شادی کرنے پر شوہر کو 1سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق مقدمے کی صورت میں باپ ہر ماہ کی 14تاریخ کو بچے کوخرچہ دینے کا پابند ہو گا بصورت دیگر مقدمہ سے شوہر کا تعلق ختم کر دیا جائے گا۔اگر مقدمہ خلع کا ہے اور حق مہر عندالطلب ہے تو قبل ازیں خلع کی صورت میں خاتون کو اپنا حق مہر 100فیصد چھوڑنا ہوتا تھا لیکن نئے قانون کے مطابق شوہر حق مہر کا 50 فیصد بیوی کو دینے کا پابند ہو گا اور اگر خاتون خلع کی بجائے طلاق طلب کرے تو شوہر اسے پورا حق مہر ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ دوران مقدمہ علیحدگی یا ساتھ رہنے کی صورت میں شوہر عارضی خرچہ، جو عدالت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، ادا کرنے کا پابند ہو گا اور ادا نہ کرنے کی صورت میں مقدمہ خاتون کے حق میں ڈگری کر دیا جائے گا۔وکیل شفقت اللہ کا کہنا ہے کہ نکاح نامہ پُر کرنا اور اس کا اندراج کروانا ایک قانونی تقاضا ہے، جس کی پاسداری لازم ہے۔ اکثر اوقات نکاح رجسٹرار دلہن کے حقوق کےبارے میں کالم پُر نہیں کرتے۔ اس حق کے نہ ہوتے ہوئے عورت اگر نا مساعد حالات میں آزادی چا ہے توعدالتوں میں مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے ،گواہ پیش کرنا پڑتے ہیں، الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر کہیں وہ طلاق کی اہل قرار پاتی ہے۔ اس کے لیے اس کو اپنے کئی حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور مرد کی جانب سے دیے گئے تحائف وغیرہ واپس کرنا پڑتے ہیں۔فوزیہ وقار کا کہنا ہے کہ اگر نکاح نامہ صحیح طور پر بھرا جائے تو خواتین کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو )