پیپلز پارٹی نے میاںنوازشریف کو لیڈر بنایا، اب مسلم لیگ ن عمران خان کوبنارہی ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 23, 2016 | 19:17 شام

 

لاہور(فضل حسین اعوان)پیپلز پارٹی نے میاںنوازشریف کو لیڈر بنایا، اب مسلم لیگ ن عمران خان کو اپنے مقابل لانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے 1988ء میں اقتدار میں آئی تو اس نے نواز شریف کی طرف سے جارحانہ بیانات کا جواب اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ دینا شروع کیا، بالکل آج کی طرح جس طرح عمران خان کے کے بیان پر مسلم لیگ ن کے وزیر،مشیر اور مریم نواز کے میڈیا سیل کے لیڈر پل پڑتے ہیں۔ نواز نے اس دور میں باقائدہ پلاننگ کے تحت پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کی تقسیم واضح کرکے اینٹی بھٹو ووٹ اپنی حمایت میں پکا کرکے اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرلیا تھا۔ تحریک انصاف بھی سب کچھ باقائدہ پلاننگ کے تحت کررہی ہے۔پی ٹی آئی رہنما محمودالرشید ایک شادی کی تقریب میں اپنے ساتھ ٹیبل پر بیٹھے لوگوں کو بتارہے تھے کہ انہیں عباس اطہر نے مشورہ دیاتھا کہ پی پی پی کے بجائے ن لیگ کو ٹارگٹ بنائیں ،وہ کہتے ہیں ، انہوں نے اپنی قیادت کو اس پر قائل کیا،جس کے بعدتحریک انصاف کی پزیرائی سب کے سامنے ہے۔
آج پی ٹی آئی کون لیگ کی قیادت اپنا مخالف ہی نہیں دشمن نمبر ایک کے طور پر باور کرارہی ہے۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی انڈر سٹینڈنگ کا تا¿ثر عوامی سطح پر پختہ ہورہا ہے۔عمران خان رائے عامہ کو پرو نواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔پیپلز پارٹی جمہوریت کے نام پر یا جمہوریت کی آڑ میںمسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی ہے۔ان دونوں پارٹیوں کا مخالف ووٹ پی ٹی آئی کے پلڑے میں گرتا محسوس ہوتا ہے۔یقینا مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی الگ الگ الیکشن لڑیں گی ۔ووٹر کے لئے اب دونوں میں سے ایک کو ووٹ دینا مجبوری نہیں رہی۔اس کے سامنے دونوں کا متبادل ہے۔ن لیگ آج بھی ملک کی بڑی پارٹی ہے جو پی ٹی آئی کو اپنے اشتعال ، سخت رویے،اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے طرز عمل سے اپنے مقابل لارہی ہے۔اس کا اظہار ہر ضمنی الیکشن سے بھی ہوتا ہے۔ن لیگ نے ضمنی الیکشن معمولی ماجن سے جیتے ہیں۔ن لیگ کو حکومتی ایج بھی حاصل ہے۔اندازہ کرلیں کہ لاہور میں اگر حکومت کا ساتھ نہ ہوتا تو ایاز صادق کی جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اس حلقے میں ایاز صادق کے ساتھ وہی کچھ ہوتا وہ محسن لطیف کے ساتھ ہوا۔عمران خان کی بڑھک کے جواب میں ن لیگ کی طرف سے دس بڑھکیں مارنے والے سامنے آجاتے ہیں۔جس سے نواز مخالف ووٹ جو دیگ جماعتوں میں تقسیم ہے وہ عمران کی حمایت میں اکٹھا ہورہا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ یہ ووٹ مسلم لیگ ن کے مجموعی ووٹ سے زیادہ ہوجائے بہر حال یہ عمران خان کو ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت ضروربنا سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی دوسری بڑی پارٹی کا درجہ ہی حاصل کر سکے گی وہ پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی بھی بن سکتی ہے۔1988ءمیں میاں نواز شریف جب پی پی پی کی سخت مخالفت کررہے ہوتے تھے تو پی پی پی کے لیڈر کہتے تھے ان کے ہاتھ میں وزیر اعظم بننے کی لکیر نہیں ہے اب وہ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ آج ن لیگ کے لیڈر بھی عمران خان کے بارے میں یہی کچھ کہہ رہے ہیں اور ایسا کہہ کہہ کر ان کو اپنے مقابلے پر لے آئے ہیں۔عمران خان اسلام آباد بند کرنے کی شاید صلاحیت نہ رکھتے ہوں مگر ان کاکام حکومت نے دو نومبر سے قبل شہر میں کنٹینر لگا کر شہر بند کرنے کا اعلان کرکے آسان بنا دیاہے۔حکومت عمران کے خلاف بغیر سوچے سمجھے جو کچھ کر اورکہہ رہی ہے وہ ان کے حکمت عملی کے عین مطابق ان کی حمایت میں جارہاہے۔