جنوری میں بھی بارش کا امکان کم، آبی ذخائر میں ناکافی پانی،خشک خالی کے ساءے منڈلانے لگے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 29, 2016 | 18:28 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ)پاکستان میں جاری طویل خشک سالی اور آبی ذخائر میں پانی کی سطح کم ہونے سے گندم کی کاشت متاثر ہو رہی ہے جبکہ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ میں بھی تیز بارشوں کا امکان نہیں ہے۔پاکستان میں پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا نے خبردار کیا ہے کہ خشک سالی کے سبب منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول کے قریب ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں ارسا کے ترجمان خالد رانا نے بتایا کہ آبی ذخائر میں موجودہ پانی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ

رواں سال ربیع کے موسم میں 17 فیصد پانی کی کمی کی پیش گوئی کی گئی تھی لیکن خشک سالی کی وجہ سے پانی کے دستیاب ذخائر میں مزید کمی کا امکان ہے۔

دوسری جانب محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ تین ماہ سے جاری خشک سالی فوری کے طور پر ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خشک سالی کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔انھوں نے بتایا کہ سال 2015 سے 2016 میں موسمیاتی پیٹرن النینو کی وجہ سے ملک میں بارش نہیں ہو رہی ہے اور یہ خشک سالی کب تک جاری رہے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یاد رہے کہ سال 2016 گرم ترین سال ہے اور اس حدت کے اثرات پاکستان پر بھی نمایاں ہے۔ خشک خالی کی وجہ سے بارش پر انحصار کرنے والے بارانی علاقے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق النینو کی وجہ سے خشک سالی کے بارے میں تمام متعلقہ اداروں کو قبل از وقت آگاہ کر دیا تھا۔

ڈی جی محکمہ موسمیات غلام رسول نے بتایا کہ کئی بارانی علاقوں میں کاشتکاروں نے زمین میں موجود پانی کو زیر استعمال لاتے ہوئے مختلف سبزیوں کو متبادل فصل کے طور پر کاشت کیا ہے لیکن بارش کا انتظار کرنے والے کاشت کار گندم کی فصل کاشت نہیں کر سکے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ رواں سال موسم سرما میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پنجاب، خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کے بارانی علاقوں میں وقت پر بارش نہ ہونے کے سبب گندم کی کاشت متاثر ہوئی ہے۔ارسا کے ترجمان خالد رانا کا کہنا ہے کہ بارشوں میں کمی کی وجہ سے نہری پانی پر انحصار کرنے والے کاشتکاروں کے لیے بھی پانی ناکافی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دریائے جہلم اور چناب میں پانی کی اوسطً آمد دس ہزار کیوسک کے مقابلے اب کم ہو کر محض 6 ہزار کیوسک یومیہ رہ گئی ہے۔

خالد رانا کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم اور چناب میں پانی کے بہاؤ میں کمی اور منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے کے سبب بالائی، زیریں اور وسطیٰ پنجاب میں نہری پانی پر انحصار کرنے والے کاشتکاروں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

بارش نہ ہونے کے سبب پنجاب، خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کے بارانی علاقوں میں گندم کی کاشت متاثر ہوئی ہے۔پنجاب کے ان علاقوں کا شمار زرخیز علاقوں میں ہوتا ہے اور یہاں ربیع کے موسم اہم ترین فصل گندم کاشت کی گئی ہے۔میدانی علاقوں میں بارشوں کی کمی کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر برفباری بھی کم ہوئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پہاڑی علاقوں میں 50 فیصد کم برف پڑی ہے۔

یاد رہے 1997 سے 1998 کے النینو کے بعد پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سے طویل ترین خشک سالی ہوئی جو تین سال کے عرصے پر محیط ہے۔پاکستان کے آبی ذخائر میں اوسطً 30 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اس دور میں اتنی کم مدت کے لیے پانی کا ذخیرہ بہت کم ہے۔