مجھے ایسٹر پر چرچ میں حملے کے لئے استعمال کیا جانا تھا: نورین لغاری

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 18, 2017 | 06:29 صبح

راولپنڈی + اسلام آباد + کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ میں بتایا ہے کہ حیدرآباد سے غائب ہونے والی لڑکی نورین کو لاہور سے بازیاب کرایا گیا۔ ایک بچی نورین نے فیس بک پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ میں داعش میں شامل ہوگئی ہوں‘ اس کے والدین نے آرمی چیف سے بچی کی بازیابی کی اپیل کی۔ آرمی چیف نے ایم آئی کو بچی کو بازیاب کرانے کے احکامات دیئے۔ ملک بھر میں 723 جوائنٹ چیک پوسٹ لگائی گئیں۔ نورین نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں

خود اپنی مرضی سے لاہور روانہ ہوئی تھی۔ مجھے خودکش حملے میں استعمال کیا جانا تھا۔ اپنے بچوں کی مصروفیات پر نظر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح ہے کہ نورین لغاری گھر جا کر نارمل زندگی گزارے۔ نورین نے ای میل اور فیس بک پر بتایا کہ وہ شام جا رہی ہے اسے لاہور سے گرفتار کیا گیا۔ نورین کبھی شام نہیں گئی۔ ڈان لیکس پر اگر وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اتفاق رائے ہو گیا ہے تو ان سے پوچھیں وزیر داخلہ ڈان لیکس پر معاملات 4,3 دن میں لانے کی پاسداری کریں گے۔ ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کو اپنے ٹاسک مکمل کرنے میں وقت لگا ہے۔ ردالفساد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی سیاسی بات پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ مدرسہ اصلاحات کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں کی اصلاحات بھی پروگرام کا حصہ ہیں۔ سرحدیں مزید محفوظ بنانے کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگائی جا رہی ہے۔ بیالیس فورٹ بنائے جا چکے ہیں۔ 63 پر کام جاری ہے۔ فوجی عدالتوں میں 274 مقدمات کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ پاک افغان سرحد پر پہلے مرحلے میں 744 کلو میٹر تک تاریں لگائی جا رہی ہیں۔ نورین نے نے بتایا کہ میں خود لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہوں۔ نورین نے بتایا کہ 'علی کی شروع سے ہی دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی تھی، جیسے کہ خودکش حملہ کرنا اور سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کرنا وغیرہ'۔انھوں نے بتایا کہ علی کے ساتھ ابوفوجی نام کا ایک لڑکا بھی ملوث تھا، ان کارروائیوں کے لیے یکم اپریل کو 'تنظیم' نے سامان فراہم کیا، جن میں خودکش جیکٹس، 4 ہینڈ گرنیڈز اور کچھ گولیاں شامل تھیں۔نورین نے مزید بتایا کہ ان خودکش جیکٹس کا استعال مسیحیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر کسی چرچ میں کرنا تھا اور خودکش حملے کے لیے مجھے استعمال کیا جانا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی 14 اپریل کی رات سکیورٹی فورسز نے ہمارے گھر پر ریڈ کیا'۔موجودہ صورت حال میں اپنے بچوں کی مصروفیات پر نظر رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ نورین لغاری کی بازیابی کے بعد لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں کھلبلی مچ گئی ہے اور یونیورسٹی میںممکنہ طور پر مزید انتہا پسند طلبا کا سراغ لگانے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ مختلف ایجنسیوں نے یونیورسٹی میں ڈیرے ڈال لئے ہیں جبکہ نورین لغاری کی یونیورسٹی میں مصروفیات اور اسکے دوستوں کے طرزعمل اور انداز فکرکی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر نوشاد شیخ نے یہ کہہ کر مزید چونکا دیا ہے کہ ہندو لڑکیاں بھی نورین کی سہیلی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ لیاقت یونیورسٹی نورین لغاری کے کسی عمل کی ذمہ دار نہیں ۔ جامعہ میں ایسا ماحول نہیں کہ طلبا شدت پسندی کی طرف مائل ہوں تاہم احتیاطی تدبیر کے طور پر اساتذہ کوبچوں پرنظررکھنے کوکہہ دیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ میں طلباکی ذہن سازی کے کوئی شواہد نہیں ملے ، ہوسکتا ہے سوشل میڈیا پر ترغیب دی گئی ہو ، یونیورسٹی میں فیس بک اور یوٹیوب بند ہے، نورین لغاری نے باہر سوشل میڈیا استعمال کیا جو اسے انتہاءپسندی کی طرف لے گیا۔ حیدر آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وائس چانسلر لیاقت میڈیکل کالج ڈاکٹر نوشاد نے بتایانورین مذہبی ذہن رکھنے والی طالبہ تھی۔ الگ تھلگ رہتی تھی ،وائس چانسلر نے کہا کہ نورین کی دو سہیلیاں مسلم اور تین ہندو ہیں۔