لاہور(مہرماہ رپورٹ) ایران کے قدیم قومی تہواروں میں سے ایک تہوار ہے جو اسلام سے پہلے بھی رائج تھا اور یہ ایرانی سال کے آغاز اور بہار کی آمد کا اور فطرت اور قدرت کے حُسن کا جشن ہے۔نوروز كے موقع پر بہار كي آمد كا استقبال جشن منعقد كيا جاتا ہے اور نوروز منانا ايراني قوم كي صديوں سے رائج ايك رسم ہے۔نوروز كا دوسرا نام زندگي ميں اميد اور اعتدال، امن، دوستي اور انساني وقار كا اظہار ہے اور ايراني قوم كے در ميان عيد نوروز كے دن جشن منانا ايك رائج رسم ہے،
نوروز فارسي زبان كا لفظ ہے جس كے معني "نئے دن" كے ہے. نوروز 21 مارچ بمطابق يكم فروردين يعني نئے شمسي سال كے آغاز كا جشن ہے۔ايران ميں جشن نوروز كوروش اور ہخامنشي بادشاہوں كے دور ميں بھي رائج تھا جنھوں اسے باقاعدہ طور پر قومي جشن قرارديا. اس دن وہ فوجيوں كي ترقي، مختلف مقامات، گھروں كي صفائي اور مجرموں كو معاف كرنے كے حوالے سے احكامات جاري كرتے تھے۔ ہخامنشي بادشاہ داريوش يكم كے زمانے ميں تخت جمشيد ميں نوروز كي تقريب منعقد ہوتي تھي۔ان روايات اور تاريخي دستاويزات كے علاوہ نوروز كي تاريخ كے بارے ميں افسانوي كہانياں بھي ہيں جو ايران كي بعض قديمي كتابوں بالخصوص شاہنامہ فردوسي اور تاريخ طبري ميں بھي موجود ہيں. ان كتابوں ميں جمشيد اور كيومرث كو نوروز كے باني كہا گيا ہے۔
ايراني قوم عيد نوروز كو سال كے سب كے بڑے تہوار كے طور پر مناتي ہے. نيا سال شروع ہونے سے پہلے ہي لوگ اپنے گھروں كي صفائي شروع كر ديتے ہيں. اس كو "خانہ تكوني" كا نام ديا جاتا ہے. اس موقع پر لوگ ہر نئي چيز خريدنے كي كوشش كرتے ہيں. عيد نوروز سے پہلے بازاروں كي رونق ديكھنے كے لائق ہوتي ہے. بچے و بڑے سبھي عيد نوروز كے ليے نئے لباس و رنگين كپڑے خريدتے ہيں۔نوروز كي ايك دلچسپ رسم يہ ہے كہ لوگ سال كے آغاز پر اپنے گھروں ميں ايك خصوصي دسترخوان بچھاتے ہيں جس پر سات مختلف اور مخصوص اشياء ركھي جاتي ہيں جن كا نام حروف تہجي كے مطابق "س" سے شروع ہوتا ہے.
اس رسم كو "ھفت سين " كا نام ديا جاتا ہے۔عام طور پر يہ سات اشياء سيب، سبزگھاس، سركہ، گندم سے تيار شدہ ايك غذا، ايك رسيلا پھل يا بير، ايك سكہ اور ادرك پر مشتمل ہوتي ہيں. بعض اوقات ادرك كي بجائے كوئي مصالحہ ركھ ديا جاتا ہے۔ہفت سين دسترخوان يا سين سے شروع ہونے والے سات كھانوں كے دسترخوان كو ايك تاريخي اہميت حاصل ہے. يہ اشياء زندگي ميں سچ، انصاف، مثبت سوچ، اچھے عمل، خوش قسمتي، خوشحالي، سخاوت اور بقاء كي علامت كے طور پر شامل كي جاتي تھيں۔نوروز 12 ممالك ميں منايا جاتا ہے جن ميں اسلامي جمہوريہ ايران، تركي، آذربائيجان، بھارت، پاكستان، ازبكستان، كرغستان، قازقستان، افغانستان، تركمانستان، تاجكستان اور عراق شامل ہيں. اقوام متحدہ كے ادارہ يونيسكو نے نوروز كو دنيا كے غير مادي ثقافتي ورثے كے طور پر درج كيا گيا ہے۔اقوام متحدہ كے ادارہ يونيسكو نے 2009 كو اپني فہرست ميں عيد نوروز كو ايران، آذربائيجان، بھارت، كرغزستان، پاكستان، تركي اور ازبكستان كي جانب سے ايك مشتركہ ثقافتي دن منانے جانے پر درج كيا گيا تھا۔ايران ميں لوگ جشن كے اس وقت پر ايك دوسرے كو مبارك باد ديتے اور اس كے ساتھ آنے والے نئے سال ميں سلامتي اور ترقي كي دعائيں كرتے ہيں۔اسلامي جمہوريہ ايران ميں چونكہ نوروز كا تہوار سركاري طور پر منايا جاتا ہے اور ملك بھر ميں عالم تعطيل ہوتي ہے، حكومتي دفاتر پانچ دن كے لئے بند رہتے ہيں اور لوگ دو ہفتے تك خاندان كے افراد اور دوستوں كے ساتھ تفريح كرتے ہيں اور دعوتيں كرتے ہيں۔ ايران ميں نئے سال يا نوروز كا جشن تيرہ دن تك منايا جاتا ہے اور عام تعطيل ہوتي ہے. ان چھٹيوں كا 13واں دن منحوس گردانا جاتا ہے اور خاندان كے افراد اس دن گھر چھوڑ كر باہرنكل جاتے ہيں اور پورا دن گھر سے باہر كھانے پينے اور كھيلنے كودنے ميں گزار ديتے ہيں اور اس طرح وہ اپني تعطيلات كا اختتام مناتے ہيں
.
عید نوروز کی مزید تحقیق کے مطابق3000 ہزار قدیم جشن بہاراں کا تذکرہ زرتشت اور اس سے قبل کے دور میں بھی ملتا ہے۔ اہل ایران اسے آج بھی نہایت جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی انقلاب کے بعد اس میں وہ جشن مسرت اور ہنگامہ خیزی نظر نہیں آتی جو اس کا خاصہ ہے مگر اس کے باوجود پورے ایران میں شہر ہوں یا دیہات یہ تہوار دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔
بس فرق یہ ہے کہ پہلے اسے آتش پرستی کی قدیم روایات کا تقدس حاصل تھا۔ اب اسے شیعہ روایات کے مطابق تخلیق کائنات کے علاوہ حضرت آدم کی خلافت اور حضرت علیؓ کی ولادت کے حوالے سے بھی منسوب و مخصوص کیا جاتا ہے۔ وجہ بہرحال جو بھی‘ یہ دن رنگ و خوشبو کے ساتھ ساتھ ایران‘ افغانستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان اور کشمیر میں بھی بشمول گلگت بلتستان ہر سال جشن بہاراں کے نام پر منایا جاتا ہے۔ ان ممالک کے لوگ نہا دھو کر نئے کپڑے پہنتے ہیں اور گھروں میں صفائی کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ہر گھر میں مزے مزے کے مخصوص پکوان پکتے ہیں۔ خوب گہماگہمی رہتی ہے۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں اس روز صبح سویرے ان ممالک میں اپنے اعزاءو اقرباءکی قبروں پر فاتحہ خوانی بھی ہوتی ہے۔ مردوزن بچوں کو لیکر باغات کی‘ نہر و دریا کنارے سرسبز مقامات پر سیر کو نکلتے ہیں۔ ان ممالک میں یہ موسم بہار کے ابتدائی ایام کی وجہ سے بادام اور سیب کے گلابی و سفید درختوں کے جھنڈ میں ڈھکے باغوں کی سیر انتہائی لطف دیتی ہے۔ پہاڑوں پر شب نوروز کو آگ جلائی جاتی ہے۔ شہروں اور دیہات میں آگ کے الاﺅ روشن کرکے سردی کو خدا حافظ کہا جاتا ہے۔ پرانی ٹوٹی پھوٹی اشیاءاور ملبوسات و رضائیاں و کمل اس الاﺅ میں پھینک کر لوگ اظہار مسرت کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر موسیقی کی محفلیں سجتی ہیں۔ بہار کی آمد کے گیت گائے جاتے ہیں۔ نئی صبح اور نئی امیدوں کے چراغ روشن کئے جاتے ہیں۔ غم و الم کو سردی کی طویل مدت کے بعد رخصت کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ماہرین فلکیات و علم نجوم اور سیارگان کی حرکات پر نظر رکھے ماہرین و عامل حضرات سالانہ زائچہ بناتے ہیں۔ ملکی و فلکی حالات اور ان کے اثرات کا حکومتی ممالک اور عوام کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یوں ہر سال کا نیا حساتی نظام بنایا جاتا ہے۔ لوگوں کے سالانہ زائچہ کی قسمت کے حالات کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ 21 مارچ کو صبح 10 اور 11 بجے کے درمیان سعد امور بجا لائے جاتے ہیں۔ دودھ کے پیالے میں گلاب رکھ کر اس کی حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جب وہ ساکن ہو تو حجرت اور سعد عملیات تیار کی جاتی ہیں۔ سعد الورح اور نقش رقم کئے جاتے ہیں۔ مخصوص دعائیں اور عبادات ادا کی جاتی ہیں۔ رات کو لوگوں میں ایک خاص مقام پر تازہ پھل‘ پکا ہوا کھانا ‘ مٹھائی‘ آئینہ‘ کنگھی‘ تقویم یا جنتری سونے یا چاندی کے سکے رکھے جاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر انہیں دیکھنا سعد سمجھا جاتاہے۔ صبح سویرے غسل کرکے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں تاکہ سارا سال صحت اچھی رہے۔ باغ کی سیر بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ تازہ ہوا‘ سبز‘ پھل‘ پھول اور چہل قدمی سرور کا باعث بنتی ہے۔ ایران اور دیگر ممالک میں شب نوروز کو لوگ آگ کی مشعلیں لیکر بلند مقامات پر روشن کرتے ہیں۔ اونچے ٹیلوں اور پہاڑوں پر یہ منظر نات خوبصورت لگتا ہے۔
الغرض یہ بہار کی آمد کے اعلان کا جشن کچھ مذہبی رسومات اور تقریب کے پردے میں لپٹا بہت سے ممالک میں دلچسپی سے منایا جاتا ہے۔ یونائی تہذیب کے عروج میں بھی جب ماہرین فلکیات نے آسمانی برجوں کی ترتیب بندی کی تو یہ برج حمل میں سورج کی آمد پر آغاز بہار کا دن کہلایا اور وہاں بھی یہ تہوار زوروشور سے منایا جاتا ہے۔ مصری اور بابل تہذیب کے عروج میں بھی اس کے معدوم آثار و اثرات ملتے ہیں جہاں شمع کی پوجا کا رواج تھا۔ ایران میں زرتشت کے دور جب روشنی کو نور کو نیکی کے خداکا درجہ دیا گیا تو آگ کو اس کا خطر قرار دیا گیا۔ سورج کی تعظیم کے ساتھ آگ بھی تقدس کی حامل ٹھہری۔ یوں اس دور میں نوروز کو عروج حاصل ہوا در کو روشن اعظم کے عہد میں اس کے بھرپور انداز میں منانے کے احکامات ملتے ہیں۔
اسلام میں اگرچہ اس کی کوئی اصل نہیں مگر عجمی روایات کی وجہ سے اور اثنا عشریہ مکتب فکر کے حامل لوگ آج بھی یہ دن نہایت اہتمام سے مناتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں خاص طورپر یہ دن منایا جاتا ہے۔