لاہور(مہرماہ رپورٹ) ایران کے قدیم قومی تہواروں میں سے ایک تہوار ہے جو اسلام سے پہلے بھی رائج تھا اور یہ ایرانی سال کے آغاز اور بہار کی آمد کا اور فطرت اور قدرت کے حُسن کا جشن ہے۔نوروز كے موقع پر بہار كي آمد كا استقبال جشن منعقد كيا جاتا ہے اور نوروز منانا ايراني قوم كي صديوں سے رائج ايك رسم ہے۔نوروز كا دوسرا نام زندگي ميں اميد اور اعتدال، امن، دوستي اور انساني وقار كا اظہار ہے اور ايراني قوم كے در ميان عيد نوروز كے دن جشن منانا ايك رائج رسم ہے،
bn2.gstatic.com/images?q=tbn:ANd9GcQBNm3Vng53Wwm8GwQI9SvfmbQUlJbdPbbewBGEbzreozDFO3MFhw" style="height:294px; width:500px" />
بس فرق یہ ہے کہ پہلے اسے آتش پرستی کی قدیم روایات کا تقدس حاصل تھا۔ اب اسے شیعہ روایات کے مطابق تخلیق کائنات کے علاوہ حضرت آدم کی خلافت اور حضرت علیؓ کی ولادت کے حوالے سے بھی منسوب و مخصوص کیا جاتا ہے۔ وجہ بہرحال جو بھی‘ یہ دن رنگ و خوشبو کے ساتھ ساتھ ایران‘ افغانستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان اور کشمیر میں بھی بشمول گلگت بلتستان ہر سال جشن بہاراں کے نام پر منایا جاتا ہے۔ ان ممالک کے لوگ نہا دھو کر نئے کپڑے پہنتے ہیں اور گھروں میں صفائی کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ہر گھر میں مزے مزے کے مخصوص پکوان پکتے ہیں۔ خوب گہماگہمی رہتی ہے۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں اس روز صبح سویرے ان ممالک میں اپنے اعزاءو اقرباءکی قبروں پر فاتحہ خوانی بھی ہوتی ہے۔ مردوزن بچوں کو لیکر باغات کی‘ نہر و دریا کنارے سرسبز مقامات پر سیر کو نکلتے ہیں۔ ان ممالک میں یہ موسم بہار کے ابتدائی ایام کی وجہ سے بادام اور سیب کے گلابی و سفید درختوں کے جھنڈ میں ڈھکے باغوں کی سیر انتہائی لطف دیتی ہے۔ پہاڑوں پر شب نوروز کو آگ جلائی جاتی ہے۔ شہروں اور دیہات میں آگ کے الاﺅ روشن کرکے سردی کو خدا حافظ کہا جاتا ہے۔ پرانی ٹوٹی پھوٹی اشیاءاور ملبوسات و رضائیاں و کمل اس الاﺅ میں پھینک کر لوگ اظہار مسرت کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر موسیقی کی محفلیں سجتی ہیں۔ بہار کی آمد کے گیت گائے جاتے ہیں۔ نئی صبح اور نئی امیدوں کے چراغ روشن کئے جاتے ہیں۔ غم و الم کو سردی کی طویل مدت کے بعد رخصت کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ماہرین فلکیات و علم نجوم اور سیارگان کی حرکات پر نظر رکھے ماہرین و عامل حضرات سالانہ زائچہ بناتے ہیں۔ ملکی و فلکی حالات اور ان کے اثرات کا حکومتی ممالک اور عوام کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یوں ہر سال کا نیا حساتی نظام بنایا جاتا ہے۔ لوگوں کے سالانہ زائچہ کی قسمت کے حالات کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ 21 مارچ کو صبح 10 اور 11 بجے کے درمیان سعد امور بجا لائے جاتے ہیں۔ دودھ کے پیالے میں گلاب رکھ کر اس کی حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جب وہ ساکن ہو تو حجرت اور سعد عملیات تیار کی جاتی ہیں۔ سعد الورح اور نقش رقم کئے جاتے ہیں۔ مخصوص دعائیں اور عبادات ادا کی جاتی ہیں۔ رات کو لوگوں میں ایک خاص مقام پر تازہ پھل‘ پکا ہوا کھانا ‘ مٹھائی‘ آئینہ‘ کنگھی‘ تقویم یا جنتری سونے یا چاندی کے سکے رکھے جاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر انہیں دیکھنا سعد سمجھا جاتاہے۔ صبح سویرے غسل کرکے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں تاکہ سارا سال صحت اچھی رہے۔ باغ کی سیر بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ تازہ ہوا‘ سبز‘ پھل‘ پھول اور چہل قدمی سرور کا باعث بنتی ہے۔ ایران اور دیگر ممالک میں شب نوروز کو لوگ آگ کی مشعلیں لیکر بلند مقامات پر روشن کرتے ہیں۔ اونچے ٹیلوں اور پہاڑوں پر یہ منظر نات خوبصورت لگتا ہے۔