خدا کی قسم یہ نصرت الٰہی نہیں تو اور کیا ہے!!!

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 24, 2022 | 20:14 شام

اس ایک شخص کو سب مل کے گرانے چلے تھے، تیاری پوری تھی، شکنجہ بھی کس لیا تھا۔ مقتدر حلقے بھی زچ تھے، بڑا گھر بھی آن بورڈ تھا، باہر سے بھی آشیرباد حاصل تھی، سروے چیخ چیخ کے غیر مقبولیت کا پتہ دے رہے تھے۔ کوئی کہتا بزدار کیوں لگایا!! کوئی کہتا جہانگیر کو علیم کو ناراض کر دیا، کوئی کہتا فیض پہ ضد کی، اب اسکی خیر نہیں۔ کوئی ڈالر، تیل، مہنگائی، بجلی کی دہائی دیتا۔ وہ ان سب سے بے پرواہ، ازل کا سادہ درویش، لگا رہا اپنے کام میں۔ کہیں لنگر خانے کھولتا کہیں پناہگاہ۔ کبھی کرونا سے لڑتا کبھی لاک

ڈاؤن کے خلافکبھی تیل پہ ٹیکس ختم کرتا، کبھی بجلی پہ، کبھی صحت کارڈ دیتا کبھی احساس کیش، کہ غریب کا چولہا جلتا رہے۔

کبھی آئی ایم ایف جاتا، کبھی عربوں کے در جھکتا، کبھی ٹیکسٹائل کو پیکج دیتا کبھی کنسٹرکشن کو کہ پہیہ چلتا رہے۔ ایکسپورٹس کی بات کرتا کبھی ٹیکس کولیکشن کی، کبھی خودداری کی بات کرتا کبھی خود انحصاری کی۔ قوم کی تربیت کرتا کہ کرپشن سے جان چھڑا لو، اپنے ملک کا سوچو، ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ ملک عظیم بنے گا، میری قوم عظیم ہے۔ کیسا کیسا وقت آیا اور وہ ڈٹ گیا، جہاز آئے تو ملک کے لئے ڈٹ کے کھڑا ہو گیا، کہتا تھا جواب دینے کا سوچوں گا نہیں جواب دوں گا اور دیا! اور ایسا دیا کہ چشم فلک نے ایسا منظر نہیں دیکھا تھا، اس قوم نے ایسا عروج نہیں دیکھا تھا، دشمن، طیارے، پائلٹ سب الٹ پلٹ دیئے۔ فوج کو بھی فخر ہوا کہ کوئی ہے جو ڈٹ سکتا ہے۔ پھر امریکہ آیا، افغانستان سے نکلتے ہوئے، ہاری ہوئی جنگ کا ملبہ ہم پہ ڈالتے، اڈوں کا متمنی کہ جنگ جاری رکھے ڈٹ گیا! کہتا نہیں دوں گا۔ ایسا جواب، امریکہ کو؟ جس نے بھی دیا، قتل ہوا یا اپنوں کے ہاتھوں پھانسی! لیکن ڈٹ گیا، نتائج سے بے پرواہ، محمد کا دیوانہ، مدینہ ننگے پاؤں جانے والا، حرمت رسول پہ پوری دنیا سے ٹکر لینے والا، اسلاموفوبیا سے لڑنے والا۔ ڈٹ گیا!! سمجھا کہ قوم میرے ساتھ ہے وہ سمجھا فوج میرے ساتھ ہے۔

سادہ اتنا کہ اگست 21 میں چیف کو کہہ دیا کہ اگلا چیف فلاں کو بنائیں گے۔ وہ تو مل کے ملک ٹھیک کر رہا تھا۔ جانتا نہیں تھا کے سب اس کی طرح مخلص نہیں ہیں۔ لوگوں کے اپنے مفادات ہیں، اپنے مسائل ہیں۔ پریشر آتا ہے تو سب اسکی طرح ابسولوٹلی ناٹ نہیں کہہ سکتے سازش ہوتے دیکھتا رہا، کہتا رہا کے سازش ہو رہی ہے۔ ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسپیکر کو کہا، اپوزیشن کو کہا، سپریم کورٹ کو کہا، نیشنل سیکیورٹی کونسل کو کہا، کسی نے نہیں سنا تو عوام کو کہا۔ کسی نے مذاق اڑاہا، کسی نے دھمکی دی، عدالتیں کھل گئں، گدھ اکٹھے ہو گئے، بے بس ہو گئا، گھر گیا ہر طرف سے گھر گیا، کوئی قانونی راستہ نہ بچا تو اٹھا، پوچھا، کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہوا ہو؟ اپنی کل متاع، ایک ڈائری اٹھائی، اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا بنی گالہ چلا گیا۔ چلا گیا، لیکن ایسی جوت جگا گیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ایسی آگ لگا گیا تن میں جو بجھ نہیں رہی پھر میرے رب نے دن پھیر دیئے، دل پھیر دیئے۔ سازشی اکٹھے تھے، پلان مضبوط تھا، عہدے بٹے ہوئے تھے، فیصلے ہو چکے تھے۔ لیکن رب کی منظوری نہیں تھی۔

ایسی کایا پلٹی کہ سوئی ہوئی قوم جاگ گئی، جو کبھی نہیں جاگی تھی، ماڈل ٹاؤن ہو یا 71، اے پی ایس ہو یا بھٹو کی پھانسی، جو کبھی نہیں جاگی نجانے اب کیسے جاگ گئی! اب جو کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ تیل بڑھاو یا کم کرو، ڈالر اوپر یا نیچے کرو، مہنگائی کم یا زیادہ کرو، جسے بھی وزارت دو، جو عہدہ بھی جسے دو، حلف میں شرکت کرو یا نہیں، ملو یا نہیں، سیلوٹ کرو یا نہیں، ساری پارٹیاں اکٹھی کر لی، سارا میڈیا خرید لیا، ڈالر بھی لے آئے مبارکباد کے پیغامات بھی آ گئے، دوروں کی دعوتیں بھی، پراجیکٹ بھی، لیکن! جو مرضی کرو، بات بنتی نہیں ہے، عوام کو جچتی نہیں ہے، ٹرینڈ نیچے نہیں آ رہے، عوام گھر نہیں بیٹھ رہی، افسر بات نہیں سنی رہے، ریٹائرڈ بھی چپ نہیں کر رہے، سمجھ نہیں آرہی یہ کیا ہے؟ یہ نصرت الٰہی نہیں تو کیا ہے۔ تحریر فراز نقوی