.......بس تهوڑا سا احساس.........

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 26, 2016 | 18:00 شام

پچھلے دونوں اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک دوست کے ساتھ ایک کیفے جانے کا اتفاق هوا..کچھ کهانے کا موڈ نہیں تها تو بس دو فریش لائم منگوا لیے......
 اس کیفے میں جوسز کے لیے ایک بار ٹیبل بنا هوا تها....دوست سے گفتگو کرتے هوئے ہماری نظر بار ٹیبل پر پڑی تو وهاں کهڑے لڑکے نے سیون اپ کے دو کین کهولے اور گلاسوں انڈیل دیئے..پهر ایک لیموں کو چار ٹکڑوں میں کاٹا.....اس کا ایک ایک ٹکڑا گلاس میں نچوڑا اور ایک ایک ٹکٹرے میں هلکا سا چیرا ڈال گلاس کے کونے میں پرو دیا...
دو سٹرا نکال کر گلاسوں

میں رکهے اور دستانے پہنے ایک سوٹڈ ویٹر کے ہاتھ میں ٹرے تهمائی...
جس نے بہت ہی ادب سے همیں سرو کیا...
ایک سیون اپ کین کی قیمت 50 روپے ہے..ایک لیموں کی قمیت اگر مہنگا بهی هو تو 55 روپے هے..سٹرا شاید 2 روپے میں پڑتا هو گا...ٹوٹل ملا کر 109 روپے بنتے ہیں...
 بل آیا تو مجھ سے پہلے میرے دوست نے بل دیکهے بغیر ویٹر کو اپنا ویزا کارڈ تهما دیا..میرا دوست واش روم گیا اور اتنے میں ویٹر کارڈ اور پرچی واپس کے آیا..میں نے ویسے ہی بل اٹها کر دیکها تو تفصیل یوں تهی...
فریش لائم -/1200
جی ایس ٹی -/204
ٹوٹل -/1404
اس بل کو دیکھ کر نہ مجهے کوئی حیرت هوئی اور نہ میرے دوست نے ایسا محسوس کیا....
یہ ایک مثال تهی...ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جہاں هم بے دریخ پیسے خرچ کرتے ہیں...
 تین سال کی وارنٹی والا کوٹ دس هزار میں خرید کر اگلے سال دو اور لیں گے..سال میں چار جوڑے جوتوں کے لیں گے..
هوٹلنگ پر هزاروں روپے برباد کریں گے...
 انٹرنیٹ، تهری جی، موبائل سیٹس، گهڑیاں، پین، گیجٹس، لیپ ٹاپس اور پتہ نہیں کیا کیا.. لیکن هم خرچ کرتے رهتے ہیں... کرنا بهی چاهیے.. جب کماتے ہیں تو خرچ کرنے کے لیے ہی کماتے ہیں....
لیکن کبهی غور کریں کہ فریش لائم کے یہ 1404 روپے کسی کی زندگی میں کتنے اہم ہیں...
آج بهیگتی بارش میں ایک جگہ انتظار کرتے هوئے درخت کے نیچے یہ خاتون نظر آئیں...
 هم کہتے یہ ایک بهکاری هے... بهیک مانگنا ان کا پیشہ هے... کبهی حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر پانچ روپے کا سکہ تهما دیا تو بہت اچها هے ورنہ جهڑک دیتے ہیں.....
غور کریں تو یہ ماں هے...
ستر سالہ بوڑهی ماں....
جهریوں سے بهرا چہره....
سفید بال.....
 ایک چادر میں سردی اور بارش سے بچنے کی کوشش میں جانے کس مجبوری اور کس آس میں یہاں بیٹهی انسانیت کا ماتم منا رهی تهی....
کبهی اپنی ماں کی مجبوری کا تصور کیجیے اور پهر اپنے دل کو ٹٹولیے کہ کیا یہ ایک بهکاری هے؟
میں اظہار سے قاصر هوں کہ میں اس وقت کس کیفیت کا شکار هوں...
میں نے ان اماں جی کو ایک نوٹ تهمایا...
بڑی حسرت اور کرب سے کہنے لگیں...
بیٹا اس کا کهلا هوتا تو یہاں بیٹھ کر کیا کرتی.....
میں نے کہا ماں جی بس رکھ لیں....
جانے کتنی بار انہوں بے یقینی سے مجهے دیکها..
پهر ایک نگاه نوٹ پر ڈالی...
ایک مجھ پر ڈالی اور ایک آسمان پر ڈالی.....
اس ایک نگاه میں خوشی، طمانیت، دعا، شکر اور پتہ نہیں کیا کیا تها...
اس نگاه نے مجهے جتنی خوشی دی میں بیان کرنے سے قاصر هوں..
اس ایک نگاه مجهے اور ماں جی کو بیک وقت اپنے رب کے حضور جهکا دیا.....
 فریش لائم ضرور پی جیے...لیکن اگر پیسے فریش لائم سے ختم نہیں هوتے تو کسی کی ادنیٰ خوشی سے بهی کبهی ختم نہیں هوں گے...
اپنے آس پاس کے کمزور اور لاچار لوگوں پر ضرور نظرڈالیے....
 آج میں آپ کو خوشی کا ایک راز بتاتی هوں...کہیں بہت جلدی میں جاتے هوئے...کہیں ٹریفک میں پھنسے هوئے...کہیں بارش میں چلتے هوئے..کسی ریسٹورنٹ میں بیٹهے هوئے....اپنے آس پاس دیکهیے اور کوئی اس طرح کی اماں یا کوئی بهی ضرورت مند نظر آئے جس طرح اس شخص کو نظر آیا ہے تو آپ فوراََ دوڑ کر جائیے اور اسے بس ایک نوٹ تهمائیے....اور واپس آکر اپنے کام لگ جائیے..پهر دیکهیں کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت هوتی هے...۔

(بنتِ حوا)