میں نے پاکستان بنتے دیکھا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 24, 2017 | 10:59 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ رائو اسلام الدین عزیز):جب پاکستان معرض و جود میں آیا تو میں چند سال کا تھا میری دادی اماں بتایا کرتی تھیں کہ تم میری گود میں تھے۔ ہجرت1947 ایک دھند لکا میری آنکھوں کے سامنے آج تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمارا گائوں’’ اموں پور‘‘ اور سید مولانا ابو اعلیٰ مورودی کے آباو اجداد کا گائوں’’ براس‘‘ دونوں کرنال سے چند میل کے فاصلہ پر مغرب کیطرف واقع ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارا قافلہ 16بیل گاڑیوں کا قافلہ تھا۔ راستے میں پکی سڑک پر لاٹھیوں، ب

ھالوں اور بندوقوں جیسے ہتھیاروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ہماری بیل گاڑی پکی سڑک سے نیچے اتر کر ہتھیاروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ہماری بیل گاڑی پکی سڑک سے نیچے اتر کر ہتھیاروں کے ڈھیر سے بچ کر دو بارہ پکی سڑک پر چڑھ کر کرنال کے کیمپ میں داخل ہوتی تھی۔ میں نے جب ذرا ہوش سنبھالا تو اپنے ابو جان رائو عبدالعزیز سے دریافت کیا کہ لاٹھیوں اور اسلحہ کا وہ ڈھیر کہاں لگا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ پکی سڑک کے اوپرلاٹھیوں کا وہ ڈھیر کرنال شہر کے قریب کرنے جوہڑ کے قریب تھا۔ جہاں ہندو ملٹری ہر قسم کے ہتھیار ڈالوارہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلحہ کے ساتھ لڑائی کا خطرہ ہے اسلئے ہندو ملٹری مہاجرین کو نہتے کرنا چاہتے تھے۔ کرنال میں کیمپ کے دوران پاکستان سے بلوچ رجمنٹ کے لوگ پہنچ چکے تھے۔ پاکستانی فوجی دیکھ کر ہمارا حوصلہ بڑھ گیا۔ انہوں نے ہندو بلوائیوں اور ملٹری سے کہا کہ اگر قافلہ میں کسی کو کوئی نقصان پہنچا تو ہجرت 1947 کا دوسرا سین جو میرے ذہن میں ہے وہ راستہ میں کہیں پیدل جارہے تھے۔ میں اپنے تایا ابو مفلی خاں کے کندھے پر بیٹھا ہوا تھا اور میرے والد اور تایا شہباز بھی ہمراہ تھے غالباً کہیں راشن یا روٹی کی تلاش میں تھے راستہ میں ایک جگہ ہندو ملٹری نے ناکا (ناکہ) لگایاہوا تھا میرے تایا ابو لمبے آدمی تھے ہندو ملٹری کے ایک پست قد کے گورکھے( نیپالی فوجی) نے ادھر جانے سے منع کیا۔تایا ابو نے کھانا لانے کیلئے بحث کی تو گورکھے نے اچھل کر تایا ابو کے منہ پر تمانچہ ماردیا اس پر تایا ابو نے مجھے نیچے اتارا اور گورکھے کو گردن سے پکڑ لیا۔ اتنے میں فوج کے دیگر سپاہی اور میرے تایا چچا اور ابو سب نے مل کر معاملہ رفع دفع کیا مگر ہمیں واپس بھیج دیا گیا ہمارا سارا کنبہ اور قافلہ خصوصاً بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے۔ بزرگوں نے بتایا کہ ہم نے ہجرت کے راستہ میں کئی دن تک درختوں کے پتے اور کونپلیں کھا کھا کر گزارہ کیا اور بڑی مشکل سے کرنال سے لاہور کے باڈر تک سفر طے کیا۔ لاہور پہنچ کر جان میں جان آئی۔ راستہ میں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا جو بزرگوں کی زبانی اکثر سنا کرتے تھے۔