مودی کے یاروں کے ترک یاروں کی اسرائیل سے یاری

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 22, 2016 | 15:35 شام

 

استنبول(مانیٹرنگ)ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی کے لیے زور و شور سے جاری کوششیں آخر کار رنگ لے آئی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان چھ سال پہلے جو تلخی شروع ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی۔

گزشتہ ہفتے جب یوئل سٹینتز اپنے ترک ہم منصب وزیر توانائی برات البایراک سے بات چیت کے لیے ترکی پہنچے تو وہ سنہ 2010 کے بعد ترکی کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی وزیر تھے۔

اسرائیلی وزیر توانائی کا یہ دورہ اس لحاظ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے کہ اس میں دونوں ممالک

نے اتفاق کیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک دوسرے سے تعاون کو مزید فروغ دیں گے بلکہ انھوں نے اسرائیل سے ترکی تک ایک گیس پائپ لائن بچھانے کے امکانات پر بھی بات چیت کی ہے۔

دونوں وزراء کی ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی ترکی کے صدر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اگلے دس روز کے اندر اندر دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے سفیر بھی تعینات ہو جائیں گے۔

مئی 2010 میں ترکی اور اسرائیل کے دو طرفہ تعلقات اس وقت بالکل منجمند ہو کر رہ گئے تھے جب اسرائیلی کمانڈوز نے ترکی کے اُس چھوٹے بحری بیڑے میں شامل کشتیوں پر دھاوا بول دیا تھا جو غزہ کے محصوروں کے لیے امداد لے کر جا رہا تھا۔ اس جھڑپ میں ترکی کے دس امدادی کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔

بحالی تعلق، اب کیوں؟

اِس مقام تک پہنچنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان خفیہ بات چیت کے کئی دور ہوئے۔

ترکی کی ایک یونیورسٹی سے منسلک تجزیہ کار احمد قاسم ہان کہتے ہیں کہ ' اس مصالحت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اصول پسندی کی بجائے عملی سیاست کے تقاضوں کو مد نظر رکھا اور زمینی حالات کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیا اور صلح میں ہی بہتری سمجھی۔'

Image copyright AFP

Image caption فلسطینیوں کی حمایت میں جانے والے جہاز ماوی ممارا پر اسرائیلی حملے کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے

احمد قاسم ہان کی توجیح یہ ہے کہ 'مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو بڑی مشکل صورتحال کا سامنا ہے، اس قسم کی صورت حال میں خطے کا کوئی ملک اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ کسی دوسرے ملک سے تعاون میں اس کا فائدہ ہو اور وہ اس سے تعاون نہ کرے۔'

ڈاکٹر احمد قاسم ہان کے خیال میں اسرائیل اور ترکی دونوں شام میں ایران کے کردار کے حوالے سے فکرمند ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ شام میں جاری تنازع ختم ہو۔ سعودی عرب کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے خیالات یکساں ہیں۔

اس سال جون میں دونوں ممالک نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنے باہمی تعلقات بحال کر لیں گے اور پھر پچھلے ماہ اسرائیل نے امدادی بحری بیڑے والے واقعے کے ترک متاثرین کو معاضے کے طور پر دو کروڑ ڈالر دینے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس سے قبل اسرائیل نے ترکی کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا تھا کہ وہ اس واقعے پر ترکی سے سرکاری سطح پر معافی مانگے۔

معاوضہ ادا کرنے کے علاوہ اسرائیل اس بات پر بھی رضامند ہو چکا ہے کہ ترکی غزہ میں اپنی امدادی کارروائیاں جاری رکھ سکتا ہے، تاہم اس نے ترکی کی یہ شرط تسلیم نہیں کی کہ تعلقات کی بحالی سے قبل اسرائیل غزہ کا محاصرہ بھی ختم کرے۔

پائپ لائین کا منصوبہ ہے کیا؟

جب سے اسرائیل نے 2009 میں یہ دریافت کیا کہ اس کے ہاں گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں، اسرائیل نے یہ خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا کہ وہ کسی طرح ان ذخائر سے گیس نکال کر سمندر پار پہنچائے اور اس سے پیسے بنائے۔

اسرائیلی وزیر توانائی کے مطابق ان کا ملک اب تک قدرتی گیس کے تقریباً 900 ارب مکعب میٹر کے ذخائر دریافت کر چکا ہے اور امکان ہے کہ مستقبل میں مزید دو ہزار دو سو مکعب میٹر گیس دریافت کر لی جائے گی۔

وزیر کا کہنا تھا کہ ' اس گیس کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ ہماری ضرورت سے بہت زیادہ۔ اس لیے ہمارے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم یہ گیس خطے کے دیگر ممالک یا یورپی ممالک کو برآمد کر سکیں۔'

اسی خیال کے پیش نظر اسرائیل علاقائی سطح پر توانائی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دے رہا اور مصر، اردن، قبرص اور یونان سے تجارتی تعلقات بڑھا رہا ہے۔ تاہم اس کی نظر ترکی پر ہے جو ایک اہم معاون ملک ثابت ہو سکتا ہے۔

ترکی اور اسرائیل کو کیا فائدہ ہو گا؟

اس وقت قدرتی گیس کے لیے ترکی کو دستیاب وسائل محدود ہیں اور اس کی گیس کی ضرویات کا 56 فیصد روس مہیا کر رہا ہے۔

ڈاکٹر احمد قاسم ہان سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان نومبر 2015 میں ترکی فضائیہ کے ہاتھوں روسی جنگی طیارے کے گرائے جانے سے جو مسئلہ پیدا ہوا تھا وہ اب حل ہو چکا ہے۔ ان کے بقول اس واقعے کے بعد ترکی کو احساس ہو گیا تھا کہ توانائی کے معاملے میں روس پر اس کا انحصار بہت زیادہ ہے اور آنے والے وقت میں اسے توانائی کے لیے دیگر ممالک سے بھی تعلقات بڑھانے پڑیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے اسرائیل سے ترکی گیس پہنچانے کے لیے دو ممکنہ راستے استعمال کیے جا سکتے ہیں، ایک وہ جو لبنان اور شام کے پانیوں سے گزرتا ہے جبکہ دوسرا جو قبرص کے پانیوں سے ہوتے ہوئے ترکی کے ساحل تک پہنچتا ہے۔

شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے پہلے راستے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں اور قبرص والا راستہ بھی اس وجہ سے مشکل ہے کہ ترکی سنہ 1974 میں اس جزیرے پر چڑھائی کر چکا ہے جس کے نتیجے میں قبرص دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔

دوسری جانب اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں کوئی معاون ملک تلاش کرے تاکہ اس کے گیس کے ذخائر معاشی طور پر سود مند ثابت ہو سکیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی گیس بین الاقوامی منڈی لائے۔ اس لیے اس کے لیے نہیات ضروری ہے کہ وہ جلد ازجلد پائپ لائین تعمیر کرے۔

ڈاکٹر ہان کے مطابق ' ترکی والا راستہ اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ مؤثر اور کم قیمت ہوگا۔اس لیے اسرائیل کا قدرتی انتخاب یہی ہوگا کہ وہ ترکی تک پائپ لائین تعمیر کرے۔'

دیپا امن ممکن ہوگا؟

اگرچہ دونوں ممالک میں مصالحت ہو گئی ہے، لیکن یہ بات کہنا درست نہیں ہو گا کہ یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور ان میں اخلافات نہیں ہوںگے۔

اس بات کے امکانات کم ہیں کہ اسرائیل طیب رجب اردوگان کے یہ الفاظ بھول جائے کہ اسرائیل ایک 'دہشتگرد ریاست ہے جو معصوم بچوں کا قتل عام کرتی ہے۔' یہاں تک کہ ادروگان اسرائیل پر یہ الزام بھی لگا چکے ہیں کہ اس نے ہٹلر کی روح کو زندہ رکھا ہوا ہے۔'

اسی طرح ترکی کی جانب سے فلطسینیوں کی حمایت بھی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ترکی شدت پسند تنظیم حماس کی حمایت کرتا رہا ہے جو اسرائیل کے خلاف برسر پیکار رہی ہے۔

لیکن ڈاکٹر احمد قاسم ہان کہتے ہیں کہ 'دونوں ممالک کے تعلقات کا انحصار ان دونوں کی اندورنِ ملک پالیسیوں پر ہے۔ اور ان دونوں ممالک کے اندر سیاست ایسی ہے، جو اس مصالحت کو کبھی بھی ختم کر سکتی ہے۔'