نئی فوجی قیادت کو درپیش اہم ترین چیلنجز ، تفصیلات اس خبر میں
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 13, 2016 | 06:37 صبح
لاہور(ویب ڈیسک)گزشتہ ماہ پاکستانی فوج کی کمان سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ادارے میں کئی اہم تبادلے کئے ہیں، جس میں قابلِ ذکر تبادلہ آئی ایس آئی چیف کا ہے۔
یہ عہدہ سابق کور کمانڈر کراچی جنرل نوید مختار کو دے دیا گیا ہے جب کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد، کا صدر بنا دیا گیا ہے۔پاک فوج میں اس کے علاوہ بھی کئی اہم تقرریاں کی گئیں ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے گو کہ دہشت گردانہ کارروائیاں گزشتہ تین برسوں میں کم ہوئی ہیں، تاہم ان کا قلع قمع ہونا ابھی باقی ہے۔ اُن کے خیال میں نئی عسکری قیادت کو اس خطرے سمیت کئی اور چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔
ان تقرریوں کے حوالے سے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ توصیف احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں فرقہ وارانہ اور جہادی عناصر کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں گی کیونکہ سیاسی قائدین کے خیال میں یہ عناصر نہ صرف ملک کی اندورنی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں بلکہ ان کا ایجنڈا بھی جمہوریت مخالف ہے اور یہ غیر جمہوری عناصر کا دم چھلہ بن کر جمہوری حکومتوں کو کمزور کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ نواز حکومت سمجھتی ہے کہ یہ عناصر خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی تجارت نواز پالیسی میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ان کے خلاف سخت کارروائیاں اس وجہ سے نہیں ہو سکیں کیونکہ سویلین حکومت کمزور تھی لیکن راحیل شریف کے جانے سے ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت مضبوط ہوئی ہے اور وہ اب خطے میں امن کے حوالے سے اپنی پالیسوں پر عمل درآمد کی کوشش کرے گی۔ آپ دیکھیں کہ ایل او سی پر کشیدگی بھی کم ہو گئی ہے اور آنے والے مہینوں میں بھارت اور افغانستان سے تعلقات میں بھی بہتری پیدا ہوگی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی عسکری قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ ان تنظیموں کی سماج میں بہت مضبوط جڑیں ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں عسکری حلقے بھی ان گروہوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں بین الاقوامی برادری کے ساتھ چلنا ہے تو نئی عسکری قیادت کو ان عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی کرنا پڑے گی۔‘‘
نئی عسکری قیادت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ فرحان حنیف صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ٹی ٹی پی کسی حد تک کمزور ہوئی ہے لیکن اس کی مکمل طور پر کمر نہیں ٹوٹی۔ اس کے علاوہ طالبان سے الگ ہونے والے گروہ بھی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں جیسے کہ ٹی ٹی پی جماعت احرار۔ داعش کے قدم افغانستان میں مضبوط ہوتے جارہے ہیں اور پاکستان میں داعش اور لشکرِ جھنگوی العالمی میں بھی تعاون بڑھتا جارہا ہے حالیہ مہینوں میں کئی ایسی کارروائیاں ہوئی ہیں جس کی ذمہ داری ان تنظیموں نے قبول کی ہے۔ لہذا ان کا قلع قمع کرنا بھی نئی عسکری قیادت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ بلوچستان میں جاری علیحدگی کی تحریک اور سی پیک کی تکمیل بھی ان چیلنجوں میں شامل ہیں، جس کا سامنا نئی عسکری قیادت کو ہوگا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’داعش پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے لیکن بد قسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے نئی عسکری قیادت کو افغان حکومت کے ساتھ ملک کر کام کرنا پڑے گا اور کابل میں بھارتی اثر ورسوخ کی وجہ سے نئی عسکری قیادت کے لیے یہ بھی ایک چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح اس مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی بنائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ نئی عسکری قیادت کو فرقہ وارانہ عناصر کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا پڑیں گی۔’’لیکن صرف عسکری کارروائی سے ہی ان عناصر کی بیخ کنی نہیں کی جا سکتی۔ ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر ان سے حمایت مانگتی ہیں، تو سیاست دانوں کو بھی اپنے رویے تبدیل کرنا پڑیں گے ۔جھنگ میں فرقہ وارانہ تنظیم کے رہنما کا الیکشن جیتنا خطرہ کی گھنٹی ثابت ہوسکتا ہے، اگر اس تنظیم کی پورے ملک میں بتدریج حمایت بڑھتی ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اسی کی دہائی میں کوئی زیادہ اہمیت کی حامل نہیں تھی لیکن اب وہ سیکولر بھارت کی سب سے بڑی جماعت ہے۔‘‘
فرقہ پرستی و انتہاپسندی کے خلاف لڑنے والے سماجی کارکن جبران ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’فرقہ وارانہ تنظیمیں اس ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فوج براہ راست جاکر ان عناصر کو پکڑ تو نہیں سکتی۔ سب سے پہلے پارلیمنٹ اس بات کا فیصلہ کرے کہ وہ اسے بڑا خطرہ سمجھتی ہے کہ نہیں۔ ابھی تو صورتِ حال یہ ہے کہ ایک فرقہ پرست تنظیم کا آدمی پنجاب اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ ملک میں داعش اور لشکر جھنگوی کی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں اور ان تنظیموں کا ختم کرنا ہم سے کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔‘‘