قدرت کا انمول تحفہ لالچ کی وجہ سے زہر بنتا جا رہا ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 10, 2016 | 15:42 شام

لاہور (شفق ڈیسک) اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں میں سے ایک دودھ بھی ہے۔ یہ سفید سیال غذائیت کا خزانہ ہے۔ ایک گلاس دودھ انسان کو پروٹین‘ چکنائی‘ کاربوہائڈریٹ‘ کیلشیم‘ میگنیشم اور قیمتی وٹامن فراہم کرتا ہے۔ افسوس کہ انسان کے لالچ اور ہوس نے اس آفاقی نعمت کو بھی تنازعات اور سکینڈلوں کا نشانہ بنا دیا۔ دودھ ایک غذائیت بخش غذا ہے‘ مگر جب وہ لالچی لوگوں کے ہاتھ لگا‘ تو موت بانٹنے والا زہر بن گیا۔ غذائی شے سے مضرِ صحت بننے کی داستان عبرت ناک ہے۔ کچھ عرصے قبل ممتاز

وکیل‘ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دی کہ ملک بھر میں ملاوٹ شدہ یا کیمیائی مادوں سے بنا مصنوعی دودھ تیار ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیق کرانے کیلئے جناب جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک بینچ بنا دیا۔ اسی مقدمے کے دوران پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ بعض کمپنیوں کا تیار کردہ ڈبا بند دودھ بھی مضر صحت اور ملاوٹی ہے۔ گویا ملاوٹ کے زہر سے ڈبا بند دودھ بھی محفوظ نہیں رہے۔ پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے سربراہ‘ بابر سلطان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہر سال 40 ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دودھ تقریباً تریسٹھ لاکھ جانوروں (گائیں و بھینسیوں) سے ملتا ہے۔دودھ کے کاروبار سے دس لاکھ خاندان وابستہ ہیں۔ قومی جی ڈی پی میں اس کاروبار کا حصہ 11.30 فیصد ہے۔ جدید اعداد و شمار کی رو سے بھارت میں ہر سال میں ایک کھرب چھیالیس ارب لیٹر‘ امریکا میں 94 ارب لیٹر‘ چین میں 45 ارب لیٹر‘ پاکستان میں 40 ارب لیٹر‘ برازیل میں 36ارب لیٹر‘ جرمنی میں 30ارب لیٹر اور روس میں 24 ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین بھارت اور پاکستان کے اعداد و شمار پر شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان‘ ان دونوں ممالک میں کروڑوں لیٹر دودھ ملاوٹی ہوتا یا پھر کیمیائی مادوں سے بنتا ہے۔ اسی لیے خصوصاً بھارت کا عدد (ایک کھرب چھیالیس ارب لیٹر) بہت غیر معمولی اور ناقابل یقین ہے۔چین کی آبادی بھارت سے زیادہ ہے مگر وہاں دودھ کی پیداوارکہیں کم ہے۔ دودھ میں پانی ملانا ملاوٹ کا قدیم ترین طریقہ ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ دودھ کی مقدار بڑھ جائے مگر پانی ملانے سے دودھ کی غذائیت کم ہو جاتی ہے۔ اگر پانی آلودہ ہے تو وہ دودھ کو مضر صحت بھی بنا دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کے دیہات میں بہت سے لوگ موسم گرما میں پانی اوردودھ ملا کر پیتے ہیں۔ یہ آمیزہ ’’کچی لسی‘‘ کہلاتا ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ کچی لسی سرد تاثیر رکھتی اور گرمی کو بھگا دیتی ہے۔ سائنس کی ترقی کیساتھ ساتھ دودھ میں ملاوٹ کے بھی نت نئے طریقے سامنے آ گئے۔ حتیٰ کہ حیوان نما انسان کیمیائی مادوں سے مصنوعی دودھ بنا کر گاہکوں کو زہر پلانے لگے ہیں۔ وطن عزیز کے خصوصاً شہروں میں ایسا مضر صحت دودھ عام ملتا ہے۔ حکومتیں وقتاً فوقتاً اس لعنت کیخلاف مہم چلاتی ہیں مگر وہ اسے کلی طور پر ختم نہیں کر سکیں۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونیکا نتیجہ خراب دودھ پی کر عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دودھ کو دیر تک محفوظ کرنیکی خاطر پہلے پہل پاکستانی گوالوں نے کیمیائی مادوں کا استعمال شروع کیا۔ دراصل گوالوں کی اکثریت علی الصبح دودھ نکالتی ہے۔ یہ دودھ پھر چند گھنٹے بعد شہروں کو سپلائی ہوتا ہے۔ چنانچہ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے اور محفوظ رکھنے کیلئے گوالے اس میں جراثیم کش (جراثیم مارنے والے) کیمیکل مثلاً ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، فارملین‘ پنسلین‘ بال صفا پاؤڈر‘ بوریکس وغیرہ ملانے لگے۔ ٹھنڈا دودھ جلد خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ دودھ تادیر ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اس میں برف‘ یوریا کھاد‘ ایمونیم سلفیٹ وغیرہ کی بھی آمیزش ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ گوالوں کو علم ہوا کہ کھانے کا سوڈا (بیکنگ سوڈا) اور کاسٹک سوڈا بھی دودھ کو تادیر محفوظ رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کیمیکل بھی ملائے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ دودھ میں کئی اشیاء کی ملاوٹ معمول بن گیا۔