پاکستان سے نایاب جانوروں کے مکمل طور پر ختم ہونیکا خدشہ
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 11, 2016 | 19:30 شام
کراچی (شفق ڈیسک) دریائے سندھ میں مچھلی کے شکار کیلئے بڑے جال لگانے سے نایاب انڈس ڈولفن کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں لیکن محکمہ فشریز اور محکمہ جنگلی حیات نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ماہرین کیمطابق اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ مچھلی مکمل طور پر ناپید ہو جائیگی۔ تفصیلات کیمطابق دریائے سندھ میں پائی جانیوالی ڈولفن مچھلی کو مقامی زبان میں نابینا ڈولفن کہا جاتا ہے، ڈولفن کی یہ نسل بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان میں پائی جاتی ہے، دریائے سندھ اور اس سے منسلک کینالوں میں مچھلی کے شکار کیلئے ممنوعہ بڑے جال لگانے سے نایاب نسل کی انڈس ڈولفن کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ مقامی لوگوں کیمطابق ممنوعہ بڑے جال لگانے سے ڈولفن اس میں پھنس جاتی ہیں اور اکثر مر بھی جاتی ہیں۔ وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت گڈو بیراج سے سکھر بیراج تک انڈس ڈولفن موجود ہوتی ہیں اور دریائے سندھ کے اس ایریا میں ایسی کوئی سرگرمی نہیں کی جا سکتی ہے، جس سے انڈس ڈولفن کو نقصان پہنچے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ محکمہ جنگلی حیات اس ایکٹ پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے جبکہ محکمہ فشریز بھی اس ایریا میں مچھلی کے ٹھیکے دے کر شکار کیلئے بڑے جال لگانیکی روک تھام میں ناکام نظر آتا ہے، جس سے نایاب انڈس ڈولفن کی نسل کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب پانی میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی ڈولفن کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے، کچے کے علاقے میں زراعت کیلئے کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کے نتیجہ میں زہریلے کیمیکل دریائے سندھ میں شامل ہو کر پانی کو زہریلا کر دیتے ہیں، جو بالآخر ڈولفن کی اموات کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2011ء میں انڈس ڈولفن کی ہلاکت میں کئی گنا اضافہ ہوا جبکہ مذکورہ عرصے کے دوران مچھلی کا شکار بھی عروج پر تھا۔ حالیہ تحقیق کیمطابق دریائے سندھ میں پائی جانیوالی انڈس ڈالفن کی نسل مختلف طریقوں سے شکار کے باعث تیزی سے ختم ہو رہی ہے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ مچھلی مکمل طور پر ناپید ہو جائیگی۔ انڈس ڈولفن کا شمار پاکستان میں پائی جانے والی نایاب مچھلیوں میں ہوتا ہے۔