ڈالرو پاؤنڈ کی تلاش میں جرمنی جانیوالے دو پاکستانی نوجوانوں پر کیا گزری ؟ جانیے اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 18, 2017 | 06:03 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) جرمنی کی ریاست باویریا میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں آبادی سے دور کنٹینروں کی مدد سے تارکین وطن کے لیے ایک عارضی کیمپ  بنایا گیا ہے۔ اسی کیمپ میں دو پاکستانی تارکین وطن ایسے بھی ہیں جو شدت سے پاکستان واپسی کے خواہشمند ہیں  لیکن تاحال انکی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹیں موجود ہیں ۔

پارا چنار سے تعلق رکھنے والے پینتیس سالہ علی کا کہنا تھا، ’’میں کاروبار کرنے والا آدمی ہوں۔ میں نے سوچا تھ

ا کہ جرمنی پہنچ کر کچھ برس کام کروں گا اور اتنے پیسے کما سکوں گا کہ میں اپنے بچوں کو ایک اچھا مستقبل دے سکوں لیکن یہاں تو کام نہیں ملتا اس لیے واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘

علی جون 2015 میں  جرمنی پہنچا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جرمنی پہنچنے تک اس کے تقریبا بارہ لاکھ پاکستانی روپے خرچ ہوئے۔ سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے تقریبا تین ماہ بعد اسے جرمنی میں چھ ماہ تک عارضی قیام کا اجازت نامہ دے دیا گیا اور کام کرنے کی اجازت بھی مل گئی ۔

جرمنی میں  ملازمت حاصل کرنے میں اس کے راستے میں سب بھی بڑی رکاوٹ جرمن زبان ثابت ہوئی۔ کئی ماہ تک نوکری حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرنے کے بعد اب وہ تھک چکا ہے اور واپس پاکستان جانا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے پاس واپس جانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔

 ایک اور 25 سالہ پاکستانی نوجوان  عمران  کا تعلق اٹک سے ہے ۔ عمران نے بتایا کہ چند سال پہلے اس کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد خاندان کی کفالت کا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا ۔

کراچی میں سکیورٹی کی صورت حال سے پریشان ہو کر عمران اپنے خاندان کے ہمراہ اٹک کے نواح میں واقع اپنے گاؤں منتقل ہو گیا۔ کراچی میں وہ درزی کا کام کرتا تھا لیکن گاؤں واپس آ کر اسے اپنے گھر کا خرچہ چلانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔

عمران کا کہنا ہے کہ سن 2015 میں موسم گرما میں اسے دوستوں سے معلوم ہوا کہ جرمنی کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور وہاں پناہ دی جا رہی ہے تو اس نے بھی اس غیر قانونی سفر پر نکلنے کا ارادہ کیا۔

دوستوں اور عزیزوں سے پیسے ادھار لے کر وہ بھی اس پرُ خطر راستے پر نکل پڑا اور آخر کار اسی برس جون کے مہینے میں جرمنی آن پہنچا۔ علی کی طرح اسے بھی آؤگسبرگ کے اس نواحی علاقے میں قائم تارکین وطن کے کیمپ میں رہائش فراہم کر دی گئی۔

عمران کو بھی جرمنی میں چھ ماہ تک رہنے اور کام کرنے کی اجازت مل گئی تھی لیکن اسے بھی کام نہیں مل سکا۔ تین مہینے پہلے علی اور عمران نے جرمن حکام کو درخواست دی تھی کہ انہیں وطن واپس بھیج دیا جائے۔ دونوں  نوجوانوں نے پاکستانی سفارت خانے سے ایک ماہ کا عارضی پاسپورٹ بھی حاصل کر لیا تھا  لیکن ان کی میعاد اب ختم ہو چکی ہے۔

عمران کا کہنا ہے، ’’میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ فارغ بیٹھ بیٹھ کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا بدن کام کرنا چھوڑ چکا ہے۔ یہاں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ شامی مہاجرین کو فورا پناہ بھی مل جاتی ہے اور ان کی مدد بھی کی جاتی ہے لیکن پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہاں ہم کنٹینرز میں رہ رہے ہیں جہاں گرم پانی بھی نہیں ہے۔ میں اپنے گھر والوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے نکلا تھا لیکن اب میں اپنی ماں کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو)