مینارِ پاکستان کے بارے میں حیرت انگیز معلومات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 17, 2017 | 07:40 صبح

لاہور(مہر ماہ رپورٹ): تحریک آزادی کی عظیم الشان یادگار ،مینار پاکستان پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں واقع ہے۔ یہ مینار عین اس جگہ تعمیر کیا گیاہے جہاں 23مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرار داد لاہور جسے بعد میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا منظور ہوئی۔ تب اس جگہ کو منٹو پارک کہا جاتا تھا لیکن بعد میں مصور پاکستان شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی نسبت سے اس کا نام اقبال پارک رکھا گیا۔ مینار پاکستان اس جگ

ہ بنایا گیا ہے جہاں 23مارچ 1940 کو جلسے کا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی نشاندھی میاں امیر الدین نے کی جو اس جلسے میں شریک تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دو مرتبہ حکومت برطانیہ نے منصوبہ بنایا کہ منٹو پارک میں شاہ جارج پنجم کا مجسمہ نصب کیا جائے اور اسے ایک سیر گاہ بنایا جائے لیکن دونوں مرتبہ عالمی جنگوں کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک کو نہ پہنچ سکا کیونکہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہاں عظیم الشان مینار پاکستان تعمیر ہوا جس کی وجہ سے قرار داد پاکستان کو بقائے دوام حاصل ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد عوام کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، مسلم لیگ کے تاریخی جلسے اور اس میں منظور ہونے والی قرار داد کی کوئی یادگار تعمیر کی جائے۔ 23مارچ 1959 کو بلدیہ لاہور کے ایڈمنسٹریٹر ملک عبدالطیف خان نے باقاعدہ ایک قرارداد کارپوریشن کے اجلاس میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔
صدر ایوب خان نے بھی اس خیال کی تائید کی اور پاکستان ڈے میموریل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمشنر لاہور ڈویژن اس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ بائیس ارکان پر مشتمل اس کمیٹی میں اہم شخصیات شامل تھیں۔
مینار پاکستان کا ڈیزائن ترک نژاد ماہر تعمیرات نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھا کچھ لوگ انہیں نصیرالدین مراد خان کہتے اور لکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ ابتدا میں قرار داد پاکستان کی منظوری کی یادگار کیلئے وسیع عمارت کا ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ مارچ 1960ء میں اس کا سنگ بنیاد گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے رکھا۔ اس موقع پر اس کا ایک تین فٹ اونچا لکڑی کا ماڈل بھی نمائش کیلئے رکھا گیا تھا۔ اس ماڈل کے مطابق ایک عمارت ہلال نما سبزہ زار کے وسط میں ستارے کی شکل کے چبوترے پر ایستادہ تھی۔ یہ وسیع ہال یا آڈیٹوریم تھا جہاں جلسے منعقد کئے جا سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک لائبریری اور ساتھ ایک بلند مینار تھا۔ یہ ایک خوبصورت ماڈل تھا لیکن اس پر لاگت زیادہ آتی تھی۔ کمیٹی کی کوششوں کے باوجود جب اس کیلئے مطلوبہ سرمایہ جمع نہ ہو سکا تو 2نومبر 1962ء کو موجودہ سادہ ڈیزائن منظور کیا گیا جسے مینار پاکستان کا نام دیا گیا۔
ترک نژاد نصرالدین مرات خان راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ روس میں انہوں نے سول انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر کے تعمیراتی مصروفیات کے ساتھ روسی مسلمانوں کے لئے فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں جس پر روسی سامراج نے انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا۔ آخر وہ روس سے جرمنی منتقل ہو گئے وہاں انہیں قیام پاکستان کے پس منظر کا پتہ چلا تو وہ بہت متاثر ہوئے اور 1950ء میں پاکستان آ کر رہائش اختیار کر لی اور 15اکتوبر 1970ء کو لاہور میں ہی انتقال کیا۔
مینار پاکستان کی تعمیر میں مالی مشکلات کے پیش نظر نصرالدین مرات خان نے اپنی فیس جو کہ ڈھائی لاکھ روپے سے زائد بنتی تھی وہ بھی نہ لی اور فیس کے خانے میں یہ تاریخی جملہ لکھا۔

''A HUMBLE DONATION TO THE NATION''

یہی نہیں انہوں نے اپنے عملے کو تنخواہیں بھی اپنی جیب سے ادا کیں اور یوں دو تین لاکھ روپے مزید اپنی طرف سے خرچ کئے۔ ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔محمد نعیم مرتضیٰ نے اپنی کتاب ’’نیا لاہور‘‘ میں ان کے حالاتِ زندگی اور مینار پاکستان کی تعمیر کی کہانی تفصیل سے بیان کی ہے۔
نوزائیدہ مملکت کو درپیش مالی مشکلات اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے باعث مینار پاکستان کی تعمیر کئی بار التوا کا شکار ہوئی اور آخر کار 31اکتوبر 1968ء کو مینار پاکستان مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر پر 75لاکھ روپے لاگت آئی۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکہ تحریک پاکستان کے کارکن میاں عبدالخالق کو دیا گیا تھا۔ تعمیر کی نگرانی میں عبدالرحمن خان نیازی، جمال الدین، اعجاز حسین کاظمی، اقبال علی اسماعیل، مسٹر سلیم، اقبال علی اور میاں احمد علی وغیرہ شامل تھے۔
مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا میٹریل پاکستانی ہے۔ سنگ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے منگوایا گیا تھا۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے۔ جو 180 فٹ تک لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے اس سے اوپر کا حصہ اسٹیل کا ہے۔ اس کی پانچ گیلریاں اور بیس منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری تیس فٹ اونچائی پر ہے۔ مینار پر چڑھنے کے لیے 334 سیڑھیاں ہیں۔ جبکہ لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔
مینار کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ یہ جدوجہد آزادی کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں مشکل مراحل طے کر کے پاکستان حاصل کیا گیا۔
اس سے اوپر والے چبوترے کی تعمیر میں قدرے ملائم پتھر استعمال کیا گیا ہے جس سے مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے۔ جوں جوں بلندی کی طرف جائیں نفاست میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔ مینار کے آخر پر چمکنے والا گنبد اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان عالم اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے۔ مینار کی پہلی منزل کی چھت گنبد نما ہے اس پر خوبصورت جالی دار پھول اور بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔
مینار کے پہلے حصے میں جو برآمدوں والے گول ہال کی شکل میں ہے جس کے گرد گولائی میں پھول کی پتیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں سات فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی سنگ مرمر کی سلوں پر خط نسخ میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور قرآن مجید کی مختلف آیات درج ہیں۔ قرارداد کا مکمل متن اردو، بنگالی اور انگریزی زبانوں میں رقم ہے۔ علامہ اقبالؒ کے اشعار اور چار سلوں پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ارشادات درج ہیں۔ ایک تختی پر قومی ترانہ درج ہے۔ صدر دروازے پر ’’مینار پاکستان‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کی تختیاں آویزاں ہیں۔
یہ تمام خطاطی حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم خورشید رقم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال کے فنِ خطاطی کے عمدہ نمونے ہیں۔
مینار کے ایک چبوترے پر چاند کی شکل کا حوض ہے جس کے کونے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ کونوں والا ستارہ ہے۔
مینار پاکستان اور ملحقہ پارک کی دیکھ بھال 1982ء میں  لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے )کے سپرد کر دی گئی۔ جس کے بعد مینار کے گرد و نواح کو خوبصورت بنانے کے لیے کئی منصوبوں پر عمل کیا گیا۔ بچوں کے لیے ایک پارک بنایا گیا۔ ’’بڈھے راوی‘‘ کو پچاس لاکھ روپے کی لاگت سے خوبصورت جھیل میں تبدیل کر دیا گیا تھا اس جھیل کی لمبائی سات سو فٹ تک مزید بڑھا دی گئی۔ اب جھیل کی لمبائی چار ہزار فٹ اور چوڑائی ایک سو نوے فٹ ہے۔ اس کے وسط میں گھومنے والا ریستوران ہے۔ جھیل کی سیر کے لیے اس میں موٹر بوٹس موجود ہیں۔ بجلی کا بیشتر نظام دس فٹ گہرے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔ مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزار بھی ہے۔ مینار کے اردگرد خوبصورت سبزہ زار اور راہداریاں ہیں۔ شاید یہ دنیا کا واحد مینار ہے جو کسی قرارداد کی یاد کے طور پر تعمیر کیا گیا ہو۔
حال ہی میں اقبال پارک کو گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔ اس پارک کو مزید وسیع کیا گیا ہے اور تھیم پارک کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس میں لائبریری، اوپن ایئر جمنیزیم، بگھی ٹریک اور آٹھ سو فٹ طویل میوزیکل اینڈ ڈانسنگ فاؤنٹین یعنی فوارے نصب کئے گئے ہیں۔ اس کی آرائش و زیبائش میں اضافہ کیا گیا ہے یوں سیاحوں کی دلچسپی بھی اس میں بڑھ گئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازز شریف نے اس کا افتتاح کیا جس کے بعد یہ عوام اور سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
مینار پاکستان محض سنگ و خشت کا بنا ہوا چبوترہ ہی نہیں پاکستان کی قومی تاریخ کا روشن سنگ میل ہے۔ یہاں آنے والے سیاح صرف مینار پاکستان ہی نہیں اس کے بالمقابل واقع بادشاہی مسجد، سکھوں کے گوردوارے،شاہی قلعہ ،حضوری باغ،مزارِ اقبالؒ اور فوڈ سٹریٹ کے علاوہ تھوڑے فاصلے پر موجود مرکز تجلیات ،مزار حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ پرحاضری سے بھی فیض ہاب ہو سکتے ہیں۔