سرنج ایڈز کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہیں حیرت انگیز رپورٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 21, 2016 | 15:37 شام

لاہور (شفق ڈیسک) سرکاری ہسپتالوں میں منشیات کے عادی افراد کیلئے کلینک نہ ہونے سے نشے کے عادی افراد کی تعداد بڑھنے لگی۔ صوبائی دارلحکومت میں بڑی اور چھوٹی شاہریوں سمیت معروف تجارتی مارکیٹوں میں سرنج سے نشہ کرنیوالوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ پولیس، محکمہ صحت پنجاب، پنجاب ایڈز کنٹرول اور ضلع انتظامیہ کے حرکت میں نہ آنے کے باعث چھوٹی سے بڑی عمر کے نوجوان سرعام نشہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جسکے نتیجے میں سرنج کے ذریعے منشیات استعمال کرنیوالے افراد میں ایچ آئی وی (HIV) ایڈز کا پھیلاؤ کئی گنا بڑھ گ

یا۔ اس حوالے سے بتا یا گیا کہ ہسپتالوں میں استعمال ہونیوالی سرنج تلف ہونے کی بجائے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنیوالوں اور ویسٹ خریدنے والوں کو ملی بھگت سے فروخت کر دی جاتی ہیں۔ میو، جنرل، گنگارام، سروسز، جناح میں استعمال ہونیوالی زیادہ تر سرنج کاغذوں میں تلف کی جاتی ہے مگر یہی سرنجزری سائیکل ہوتی ہیں اور مارکیٹ میں نشہ کرنیوالوں کو بھی مل جاتی ہے۔ منشیات کے استعمال کا قومی سروے وقتا فوقتا صوبوں میں کیا جارہا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں کثیر آبادی ہونیکی وجہ سے منشیات اور سرنج کے ذریعے نشہ آور اشیاء استعمال کرنیوالوں کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں منشیات استعمال کرنیوالے افراد کی تعداد 2.9 ملین سے بڑھ چکی ہے جبکہ تقریبا 260,000 لوگ سرنج کے ذریعے نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ چرس استعمال ہوتی ہے 3.1 فیصد سرنج کے ذریعے منشیات استعمال کرنیکی وجہ سے ایچ آئی وی اور خون سے پیدا ہونیوالی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات بھی انتہائی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں نظر آرہی ہے پاکستان میں 15 سے 64 سال کی عمر کے لوگوں کا ایک بڑا حصہ کس طرح منشیات کے استعمال کے تباہ کن اثرات کا شکار ہے۔ پاکستان میں منشیات کے استعمال کا سروے رپورٹ تیار کرنیوالے نار کوٹکس کنٹرول ڈویژن، پاکستان ادارہ شماریات اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم کا کہنا تھا کہ اندازے کیمطابق تقریباً 4.5 ملین افراد منشیات کے عادی ہیں لیکن علاج معالجہ اور خصوصی طبی اقدامات کی سہولیات کی کمی پائی جاتی ہے جبکہ یہ سہولیات سال میں30000 سے بھی کم افراد کو میسر ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ مختلف قسم کا منظم علاج معالجہ بھی مفت نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کی ایک تہائی آبادی 1.25 ڈالر یومیہ پر گزارہ کرتی ہو وہاں منظم علاج تک رسائی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔