ہم سیاسی طور پر کیوں مستحکم نہیں ہوسکے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 30, 2022 | 20:44 شام

معزز قارئین! کافی عرصہ پہلے مرحوم مجید نظامی صاحب کی فرمائش پر میں نے ’’میرا پاکستان‘‘ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت میں کالم لکھے۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے ملک سے باہر گیا تو یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ واپس آیا بھی تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہو سکا۔ صرف اچھے کالموں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ میری طرح کے لوگ جن کی عمریں پاکستان کے برابر ہیں انہوں نے بارہا پاکستان کو تاریخ کے نازک ترین موڑ پر دیکھا ہے اور آجکل ہم پھر اُسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔

آج اتنا ع

رصہ گزرنے کے باوجود ہم سیاسی طور پر مستحکم کیوں نہیں ہو سکے اور ہر دس سال کے بعد یہ تماشا کیوں شروع ہو جاتا ہے؟ اس پریشانی نے پھر قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے کہ ہم سب محب وطن پاکستانی مل کر سوچیں کہ اس بیماری کی جڑ کیا ہے؟ پاکستان کا محلِ وقوع یا اس کا نظریہ؟ پاکستان کے عوام میں یا پاکستان کی لیڈر شپ؟ آئیے ان تینوں پر باری باری نظر ڈالتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے محلِ وقوع کا تعلق ہے یہ سائوتھ ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ اس کا نظریہ بھی ہمارے دشمنوں کے دلوں میں دلِ شیطان کی طرح کھٹکتا ہے۔ یہ سب کچھ اہم ضرور ہے مگر پریشانی کی بات نہیں۔ ا گر پاکستانیوں کا یقین محکم ہو اور متحد ہوں تو کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔

جہاں تک پاکستان کے غریب عوام کا تعلق ہے تقسیم ہند سے لیکر آج تک انہوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور آج بھی ان کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اب آئیے تیسرے نقطے کی طرف۔ یہ ہمارا اصلی مسئلہ اور بُرائی کی جڑ ہے یعنی اعلیٰ پائے کی سیاسی قیادت کا فقدان۔ ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظم کے بعد ہمیں اس قد کاٹھ کا کوئی لیڈر نہیں مل سکا۔ اگر کسی نے کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی قوتوں نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ آجکل عمران خان کو بھی اس قسم کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان بننے کے تقریباً ایک دہائی بعد تک ہم نہ اپنا آئین بنا سکے اور نہ اسے نافذ کر سکے۔ بھارت نے یہ کام ایک سال میں کر دکھایا۔ 1956ء میں ایک بیوروکریٹ چوہدری محمد علی نے دو مہینوں کے اندر آئین تو بنا دیا مگر اسے نافذ کرنے کی نوبت نہ آئی۔ اُس وقت تک ہم قومی سطح پر کوئی الیکشن بھی نہ کرا سکے اور پرانی آئین ساز اسمبلی سے ہی کام چلاتے رہے۔ وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ تقسیم ہند کے وقت بھارت کے پاس اعلیٰ پائے کی سیاسی قیادت تھی اور قائد اعظم کی جیب میں کھوٹے سِکّے۔ اس کے علاوہ ہندو تعلیم کے میدان میں مسلمانوں سے بہت آگے تھے اور ا س لیے اُن کے پاس اعلیٰ سول بیوروکریسی بھی تھی۔ پاکستان کے حصے میں ایک منظم ادارہ آیا اور وہ تھی فوج اور اس ادارے کے گھنے سائے تلے کوئی اور ادارہ نشوونما نہ پا سکا۔ فوجی حکومتوں میں، ہم سیاسی غلطیوں کے باوجود یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کا دور معاشی لحاظ سے پاکستان کا سنہری دور تھا۔ اُس محب وطن لیڈر کے دور میں پاکستان نے قابلِ تعریف ترقی کی۔

ہمارے منصوبوں کو اپنا کر کئی غیر ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ مگر ہمارے ازلی دشمنوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے ایک مذہبی جماعت کو استعمال کر کے ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اُن دنوں ایک قصہ بہت مشہور ہوا کہ ہاتھی چوک پنڈی میں نوجوان طلبا ایوب خان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے کہ سعودی عرب کے سفیر وہاں پر گئے اور طلبا سے پوچھا کہ وہ ایوب خان کے خلاف کیوں ہیں؟ طلبا نے کہا انہوں نے مالی کرپشن کی ہے۔ سعودی سفیر نے کہا ہم مال تمہیں دے دیں گے مگر تمہیں ایوب خان جیسا لیڈر نہیں ملے گا۔ بات سیاسی قیادت کے معیار کی ہو رہی تھی۔ بھارت میں نہرو نے زرعی اصلاحات کیں۔ تعلیم کو عام کیا اور گراس روٹ سے اعلیٰ قیادت کا انتخاب کیا۔ سب کو انصاف ملا۔ ہمارے ہاں انگریزوں کے پروردہ بڑے زمیندار اور اوقاف کی پراپرٹی کے ذریعے نو دولتی مافیا سیاست پر چھا گیا۔

صورتِ حال یہ ہوئی کہ قائداعظم کو سندھ کی حکومت کرپشن کی وجہ سے برطرف کرنا پڑی۔ شمالی سرحدی صوبہ ایک اور دردِ سر تھا۔ بہرحال یکے بعد دیگر ایسے لوگ سلطان بنے جن کے عہد میں غریبوں کی کمائی لٹتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مڈل کلاس لیڈر شب کی بجائے چند خاندان پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ غریبوں کی خون پسینے کی کمائی وہ لوٹ کر باہر لے گئے ہیں اور ملک قرضے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ کالم طویل ہو رہا ہے اس لیے 1971ء کے بعد کی حکومتوں کا ذکر بعد میں تفصیل سے ہو گا۔ اس کے علاوہ:۔ -1 سول ملٹری تعلقات -2 پاکستان کا نظامِ حکومت کونسا؟ -3 پاکستان اسلامی فلاحی مملکت کیسے بنے گا؟ آئندہ کالموں میں ان اہم موضوعات پر بھی انشاللہ تفصیل سے بحث ہو گی۔ آج فوج کے سیاسی کردار پر کچھ کہہ کر کالم ختم کرتا ہوں۔ موجودہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج نیوٹرل ہے جبکہ موجودہ پارلیمانی نظام میں فوج کبھی نیوٹرل نہیں رہ سکتی۔ موجودہ نظام میں سیاسی لٹیروں پر واحد چیک فوج کا ادارہ ہے۔

اگر پاکستان میں تعلیمی شرح 90% سے زیادہ ہو جائے۔ عام شہری کا سیاسی شعور بلند ہو تو شاید پارلیمانی نظام چل جائے۔ ورنہ یہاں وزیر اعظم بکنے والوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا رہے گا۔ پاکستان ئو کے نہیں ہے کہ وہاں پر ایک ووٹ کے فرق سے ایک سیاسی حکومت پانچ سال مکمل کر گئی۔ 1991ء سے لیکر 1994ء تک ایم آئی پنجاب کے پہلے کمانڈر کی حیثیت سے یہ تماشا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جبکہ چار حکومتیں تبدیل ہوئیں اور سپریم کورٹ پر حملہ بھی ہوا۔ جنرل باجوہ صاحب اگر فوج کا سیاسی رول ختم کرنا چاہتے ہیں تو عدلیہ کو اعتماد میں لیکر جلد از جلد صاف شفاف الیکشن کرائیں اور صدارتی نظام لے آئیں ورنہ آپ کو اسی طرح کام کرنا پڑے گا۔ ہاں اس کے لیے آپ کو فوج کی اعلیٰ قیادت پر لگنے والے مالی الزامات پر بھی توجہ دینا ہو گی۔

باعزت زندگی کے لیے وسائل ہر شہری اور ہر فوجی کا حق ہے مگر لوٹ مار کا بازار گرم نہیں ہونا چاہئے۔ بات آرمی کے نیوٹرل ہونے کی ہو رہی تھی۔ ایک شاعر نے کہا ہے: اُلجھے دامن کو چھڑاتے نہیں چھٹکا دیکر دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے پاکستان فوج چھ لاکھ بہادر شیروں کی فوج ہے۔ خدارا اسے رسوا نہ کیجئے۔ پاکستان کے عوام فوج پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ ان کے درمیان دیواریں مت بنائیے۔ آخر میں آپ سے ایک گزارش! نومبر میں جاتے ہوئے اس فوج کو جنرل راحیل شریف جیسا بہادر اور جرأت مند کمانڈر دیکر جائیے گا۔ پاکستان کے عوام اور فوج اس بات کے بھی خواہش مند ہیں کہ اس بہادر فوج کی قیادت کا فیصلہ جی ایچ کیو میں ہونا چاہیے۔ جب سے یہ فیصلے جاتی اُمرا میں ہونے لگے ہیں ہم سخت پریشان ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔