بحری جہاز میں آگ لگنے کے بدترین واقعے کی تحقیقات ایک نیا رخ اختیار کرگئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 19, 2016 | 15:33 شام

کراچی (شفق ڈیسک) گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں گذشتہ دنوں تیل بردار ناکارہ بحری جہاز میں آگ لگنے کے نتیجے میں 25 افراد کی ہلاکت کے بدترین واقعے کی تحقیقات ایک نیا رخ اختیار کرگئی وزارت دفاعی پیداوار اور پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارتوں کے حکام نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں اس حوالے سے سوال اٹھایا کہ جہاز توڑنے کے پس منظر میں اس میں موجود پیٹرولیم مصنوعات کو مبینہ طور پر سمگل کیا گیا تھا۔ ایک عہدیدار کیمطابق حکومت کی جانب سے دفاعی پیداوار کے وزیر رانا تنویر حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ج

س میں دفاعی پیداوار اور پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت کے ارکان بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کو اپنی ابتدائی تحقیقات میں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جو اتنے بڑے آئل ٹینکر کو توڑنے کے مقاصد کے حوالے سے سنگین شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ جسکے نتیجے میں اتنا بدترین حادثہ پیش آیا۔ اس ضمن میں پورٹس اینڈ شپنگ کے وزیر میر حاصل خان بزنجو نے بتایا۔ اس نتیجے پر پہنچنا کوئی بہت بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ ایک عام آدمی بھی بتاسکتا ہے کہ جہاز میں لگنے والی آگ، جسے بجھانے میں کئی دن لگے۔ جہازوں میں معمول کیمطابق موجود پیٹرولیم یا لبریکنٹس مصنوعات کی وجہ سے نہیں لگی، آگ کی شدت بہت زیادہ تھی اور سوال یہ ہے کہ آگ اتنی شدید کیوں تھی۔ کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کو بھیجی جاچکی ہے اور فی الوقت اس کے نتائج کو سامنے لانا مناسب نہیں ہے، تاہم اس میں کچھ شوک و شبہات کا اظہار کیا گیا اور کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ میر حاصل خان بزنجو سے جب جہاز کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی مبینہ سمگلنگ کے معاملے کی تحقیقات کے سوال پر کہا کہ تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونے سے شپ بریکنگ یارڈ انڈسٹری کے سٹیک ہولڈرز کے عہدیداران کو بھی شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ وفاقی وزیر نے کمیٹی کی تحقیقی رپورٹ مکمل ہونیکی تصدیق کر دی ہے۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے مطالبہ کیا کہ اس کے نتائج کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ این سی ایچ آر کی جانب سے واقعے میں جاں بحق اور زخمی ہونیوالوں کے اہلخانہ کیلئے معاوضے کی فوری فراہمی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔