ڈسکہ کا نوجوان جرمنی کے ہسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں لیتا غیبی امداد کا منتظر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 21, 2016 | 17:09 شام

لاہور(شیر سلطان ملک)25 سالہ نوجوان خزیمہ نصیر  سیالکوٹ کے شہر ڈسکہ کا رہائشی ہے ۔ ڈسکہ میں اس کی ریڈی میڈ ملبوسات کی دکان تھی ۔ خزیمہ کی ابھی تک نہ تو شادی ہوئی ہے اور نہ ہی منگنی۔  مگر وہ اس وقت  تین ماہ سے بھی زائد عرصے سے جرمنی کے شہر کولون کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے، جہاں  اگرچہ  ڈاکٹرز  اس کا علاج عملی طور پر بند کر چکے ہیں اور ان دنوں صرف اس کی طبی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

خزیمہ نصیر نے ایک غیر ملکی خبر رساں

ادارے کو  بتایا کہ پچھلے سال گرمیوں میں  وہ اپنے ہم عمر دوستوں کے کہنے پر سنہرے مستقبل کے خواب پورے کرنے کے ارادے سے  یورپ آنے پر تیار ہو گیا ۔اس کا پاسپورٹ  پہلے ہی بنا ہوا تھا چنانچہ خزیمہ نے   گھر سے 35 ہزار روپے لیے، انہیں ڈالرز میں تبدیل کروایا اور چند ہی روز میں کراچی کے راستے خزیمہ ایران کی طرف سمندری سفر پر تھا۔

پچیس سالہ نوجوان  خزیمہ کو اپنی خراب صحت کی وجہ سے کئی بار بات چیت روکنا پڑی  تاہم خزیمہ کا کہنا تھا کہ اس کی زندگی کی کہانی ان ہزارہا پاکستانی نوجوانوں کو بتائی جانا چاہیے جو اپنے لیے یورپ میں بہتر معاشی اور سماجی مستقبل کےخواب لیے ہوئے ہر قیمت پر بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

خزیمہ ڈسکہ کے رہنے والے اپنے دو دوستوں اور کئی دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ جب ایک کشتی کے ذریعے ایران کے ایک بندرگاہی شہر پہنچا تو وہاں یورپ کی طرف سفر کے دوران ایک پہاڑی علاقے میں چند ڈاکوؤں نے اس گروپ کو لوٹنے کی کوشش کی۔ اس دوران خزیمہ کی ایک ٹانگ میں ایک گولی بھی لگی اور ڈاکوؤں سے بچنے کی کوشش کی دوران بھاگتے بھاگتے اس کے دونوں دوستوں کو ایرانی حکام نے پکڑ لیا۔ ’مجھے زخمی ہونے کی وجہ سے ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا جب کہ میرے دونوں دوستوں کو ایرانی حکام نے ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھجوا دیا۔‘‘

 

خزیمہ نے بتایا کہ ایرانی ہسپتال میں چند ہفتے علاج کے بعد جب اس کی حالت تھوڑی سی بہتر ہوئی تو ڈاکٹروں نے اسے یہ کہہ کر چھٹی دے دی: ’’اب تم آزاد ہو، جہاں چاہو جا سکتے ہو۔‘‘ اس پر خزیمہ نے واپس پاکستان جانے کے بجائے اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ایک ایجنٹ کے ذریعےایران سے پہلے ترکی اور پھر ایک چھوٹی سی کشتی کے ذریعے بحیرہ ایجیئن کو عبور کر کے یونان پہنچ گیا۔

یونان سے جولائی 2015ء میں خزیمہ اور کئی دوسرے تارکین وطن نے اپنا پیدل سفر جاری رکھا اور پھر مقدونیہ، سربیا اور ہنگری سے ہوتا ہوا آٹھ اگست 2015ء کو یہ پاکستانی شہری اس وقت بلا روک ٹوک مہاجرین سے بھری ایک ریل گاڑی میں سوار ہو کر جرمنی پہنچ گیا،

جرمنی آنے کے بعد خزیمہ نصیر نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی، جس پر کوئی فیصلہ ابھی نہیں ہوا تاہم پچھلے برس دسمبر میں اسے شہر ڈسلڈورف میں ایک باقاعدہ رہائش مہیا کر دی گئی تھی اور اس نے مہاجرین کا ہنگامی کیمپ چھوڑ دیا تھا۔

بہت دھیمی آواز میں بات چیت کرنے والے خزیمہ کے لیے یورپ، خاص کر جرمنی میں رہتے ہوئے اپنے بہتر زندگی کے خوابوں کی تعبیر کا حصول اس وقت خطرے میں پڑ گیا، جب جرمنی آنے کے صرف 11 ماہ بعد اس سال جولائی میں اس کی ایک ٹانگ بہت زیادہ سوج گئی تھی۔ یہ اس کی وہی ٹانگ تھی، جس پر ایران میں اسے گولی لگی تھی۔ پھر جب اسے شہر زولِنگن کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو تفصیلی معائنے پر بتایا چلا کہ وہ سرطان کا مریض ہے۔

زولِنگن کے ہسپتال میں ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد اسے جولائی میں کولون کے ایک مرکزی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹروں کو پتہ یہ چلا کہ خزیمہ نہ صرف ہڈیوں کے سرطان میں مبتلا ہے بلکہ اس کی یہ بیماری تب تک بہت خطرناک حد تک پھیل چکی تھی۔ پھر سرطان کے علاج کے لیے اس کی کئی طرح کی کیموتھراپی بھی کی گئی لیکن کینسر بڑھتا گیا اور آخر کار ڈاکٹروں کو اسے بتانا پڑا کہ وہ اس کا مزید علاج نہیں کر سکتے تھے۔اس  وقت  خزیمہ جسمانی طور پر انتہائی کمزور اور اس کا وزن بہت کم ہو چکا ہے۔ جسمانی مدافعتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے لیکن وہ ابھی تک بڑی بہادری سے اپنی بیماری کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اسے کولون کے ہسپتال میں اب قریب ساڑھے تین ماہ ہونے کو ہیں۔خزیمہ نصیر نے بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے پاس اب زندگی کے شاید چند ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ہی بچے ہیں۔ ’’میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر ہو سکے تو مجھے واپس پاکستان بھجوا دیا جائے۔ ہسپتال کی انتظامیہ کوشش کر رہی ہے۔ پہلے میری والدہ کو یہاں بلانے کے لیے ضروری کارروائی بھی شروع کی گئی تھی۔ لیکن پاکستان سے انہیں جرمنی کا ویزا حاصل کرنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں اور میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔اب کولون کا یہ ہسپتال بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے ساتھ مل کر ان کوششوں میں ہے کہ خزیمہ کو ایک ڈاکٹر کے ہمراہ پاکستان پہنچا کر اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا جائے اور وہاں اس کی لازمی طبی دیکھ بھال بھی ہوتی رہے۔

کولون کے اس ہسپتال کے ذرائع کے مطابق خزیمہ کو عنقریب ہی ایک ڈاکٹر کے ہمراہ پاکستان بھیجنے کی تیاریاں جاری ہیں لیکن مریض کی بیماری کے آخری مراحل میں ہونے اور غیر قانونی ترک وطن کی وجہ سے بہت سی قانونی پیچیدگیاں اور انتظامی مسائل بھی ہیں۔

خزیمہ کے لیے پاکستان میں امید کی کرن  صرف اسکا  اپنا گھر اور   شوکت خانم ہسپتال ہے  ۔ جہاں اگر  اسکا مناسب علاج ہو جائے  اور  اللہ اسے شفا دے تو وہ  اپنے وطن میں  اور گھر والوں میں رہ کر  باقی ماندہ  خواب پورے کر سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے اپیل ہے کہ اس وقت جرمنی کے ایک ہسپتال میں بے یار و مددگار پڑے اس کینسر زدہ نوجوان  کو پاکستان لانے اور اسکے علاج  معالجہ  کے لیے ذاتی دلچسپی لیکر  احکامات جاری کریں ۔ انکے اس اقدام سے نہ صرف موت کے منہ سے ایک نوجوان واپس نکل سکتا ہے بلکہ  اس کا اجر  یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں  سیاسی مشکلات کے خاتمے کی صورت میں دے گا ۔‘‘