سات دہائیوں کا سفر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 07, 2017 | 07:32 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/رانا زاہد اقبال): پاکستان کو 1947ء میں ایک کمزور زرعی معیشت ملی تھی۔ زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1949ء میں زراعت سے آمدنی 10.467 ارب روپے رہی۔ ملکی جی ڈی پی میں مینو فیکچرنگ کا حصہ 1.191ارب اور ٹرانسپورٹ کا حصہ 44.2کروڑ تھا۔ ہائیڈل بجلی کی پیداوار صفر اور تھرمل بجلی کی پیداوار 26میگا واٹ سالانہ تھی۔ چنانچہ ملکی جی ڈی پی کا بہت بڑا حصہ زرعی تھا ۔ برآمدات بھی زیادہ تر زرعی مصنوعات یا اس سے تیار شدہ صنعتی پیداوار سے حاصل ہوتی تھیں۔60فیصد مجموعی قوم

ی آمدنی زراعت سے حاصل ہوتی تھی۔ 75فیصد لیبر فورس بھی اسی شعبے سے منسلک تھی۔ اب جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 25فیصد رہ گیا ہے ، 1948-49ء میں چاول 2.15 کروڑ ایکڑ، گندم 66.9 لاکھ ایکڑ اور دیگر اجناس 51.3لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت ہوتی تھیں۔ کپاس کی قیمت ایک روپیہ فی گانٹھ تھی۔ پاکستان میں کل 1557ٹیوب ویل تھے اب انکی تعداد ایک ملین کے قریب ہے۔ 1948ء میں کپاس کی ترقی کیلئے سنٹرل کاٹن کمیٹی بنائی گئی جس کا بنیادی مقصد کپاس کی بہتر مارکیٹنگ اور بعد میں مینوفیکچرنگ میں مدد دینا تھا۔ 1949ء میں بڑی فصلوں کی پیداوار میں 3.4فیصد اور چھوٹی فصلوں کی پیداوار 3.1فیصد اضافہ ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد چند سال کے اندر اندر ملک بھر میں غذائی پیداوار کی شدید ترین قلت ہو گئی۔ بھارت نے بھی پاکستانی کرنسی کی شرح تبادلہ کو تسلیم کرنے کا ذکر چھیڑ کر تجارت بند کر دی۔ بعد اذاں عالمی اداروں کی مداخلت کے بعد روپے کی قدر کا تعین ہوا اور تجارت بحال ہوئی۔

ایک رپورٹ کیمطابق 1993ء سے2013ء تک پاکستان کی 35لاکھ ایکڑ زمین کی پیداواری صلاحیت کم ہوئی۔ زرعی ترقی کیلئے 1960ء میں زرعی قرضوں کی اسکیم شروع کی گئی۔ زرعی ترقیاتی بینک کا قیام عمل میں لایا گیا، یہ بینک پانچ لاکھ روپے تک شخصی ضمانت پر قرضہ دے سکتا تھا تاہم ان قوانین میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں لائی جاتی رہیں۔ 1972ء میں بینکنگ اصلاحات میں تمام کمرشل بینکوں کو زرعی قرضے دینے کا پابند کر دیا گیا، اس غرض سے قومی کریڈٹ و مشاورتی کونسل قائم کی گئی۔ 1974ء میں زرعی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا، بعد ازاں تین مرتبہ ترامیم کی گئیں۔ 1961ء واٹر یوزر ایسوسی ایشن بنانے کیلئے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا، فارمرز آرگنائزیشنیں بھی بنیں۔ 1981ء میں کاشتکاروں کی مدد کیلئے سپورٹ پرائس کمیشن بنایا گیا اور سپورٹ پرائس کے تحت زرعی جی ڈی پی کے 10فیصد کے برابر سبسڈی دی گئی۔ عالمی بینک کے دباؤ پر پاکستان نے 2001ء میں گندم، گنے، چاول اور کپاس پر سبسڈی کی مقدار کم کر دی، حالانکہ ڈبلیوٹی او کے تحت ترقی پذیر ممالک اپنی زرعی معیشت کی اصلاح کیلئے سبسڈی دے سکتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں منگلا اور تربیلا ڈیم قائم ہونے کے بعد بہت سے غیر آباد زمینیں آباد کی گئیں لیکن مجموعی فی ایکڑ پیداوار کم رہی۔

پہلی زرعی شماری کیلئے 1958ء میں سینسز ایکٹ جاری کیا گیا جسکے تحت 1976ئ، 1986ئ، 1996ئ، 2006ء اور 2015ء میں ایگریکلچر سروے رپورٹیں جاری کی گئیں۔ 1962ء میں چھوٹے کاشتکار کل کاشتکاروں کی تعداد کا 45فیصد تھے،1972ء میں انکی تعداد 68فیصد ہو گئی، 1980ء میں 67فیصد اور 1990ء میں 74فیصد اور اب 64فیصد ہے۔1976ء میں زرعی معیشت کو تقویت دینے کیلئے پلانٹ پروٹیکشن ایکٹ نافظ کیا گیا۔ اس وقت ملک بھر میں نباتاتی مصنوعات کی تجارت 70لاکھ ٹن ہو رہی تھی، اس دور میں کارپوریٹ فارمنگ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ بعد ازاں فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا جس کے تحت 17تجربہ گاہیں مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور کاٹن انسٹیٹیوٹ ملتان نے بھی گندم، چاول اور کپاس کے درجنوں نئے بیج تیار کئے لیکن سفارش کلچر اور اقرباء پروری کی وجہ سے ان ادروں نے بہت زیادہ اچھے نتائج نہیں دیئے ۔ پاکستان تحقیق کونسل تشکیل دی گئی جس کا کام ملک بھر میں ہونے والے تحقیقی کاموں کو مربوط کرنا تھا۔زرعی مصنوعات کی پیداوار میں اضافے کی شرح 1980ء کی دہائی میں 5.4فیصد، 1990ء کی دہائی میں 4.4 فیصد، مالی سال 2002-3ء میں 4.1فیصد مالی سال 2003-4ء میں 2.4 فیصد، مالی سال 2004-5ء میں 6.5فیصد، 2005-6ء میں 6.5فیصد اور 2015ء میں 5 فیصد رہی۔گزشتہ 70 برس ہمارے ہاں زرعی صورتحال بہت پسماندہ اور غیر تسلی بخش ہے۔ہمارے ہاں جتنے بھی زرعی شعبے کے اہداف مقرر کئے جاتے رہے ہیں وہ پورے نہیں ہو ئے۔ پاکستان میں گندم کی اوسط پیداوار تقریباً 26من ہے دنیا میں 54ویں نمبر پر ہے جبکہ دنیا کے دوسرے ملکوں آئر لینڈ 90من اوسط پیداوار، نیدر لینڈ 87من، بیلجیم 84من، برطانیہ 83من، نیوزی لینڈ اور جرمنی81من، مصر65من، زمبیا58من ہے۔ خوردنی تیل ایک مستقل روگ ہے جس پر ہر سال آٹھ سے دس ارب خرچ ہو جاتے ہیں۔ بھاری غیر ملکی امداد اوپر کی سطح پر تقسیم ہو جاتی ہے جبکہ غریب ہاری اور کاشتکار مسلسل غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، جسکے اثرات ملکی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیںکہ پاکستانی زراعت میں ترقی ہوئی لیکن دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اور ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اسکی وجہ وہ بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں جو ملکی زراعت کی ترقی کو ایک عرصہ سے دھندلا رہے ہیں۔ کسی بھی شعبہ کی ترقی کیلئے بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی ازحد ضروری ہے دیہات میں رہنے والی آبادی کسمپرسی کا شکار ہے وہاں پر سماجی انصاف، صحت، تعلیم اور مواصلات کی کوئی قابلِ رشک سہولتیں نہیں ہیں۔ دوسری طرف یہ طبقہ اقتصادی پسماندگی کے ساتھ سماجی پسماندگی سے دوچار ہے، ناخواندگی، ذات برادری کی جکڑ بندی، رسوم کی پابندی، مقدمہ بازی اور دھڑے بندی دیہی معاشرے کا طرۂ امتیاز بنے ہوے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جتنی بھی انڈسٹری ہے اس کا خام مال زراعت سے حاصل ہوتا ہے لیکن حکومت نے ایسی کوئی انڈسٹری ٹریکٹر، کرم کش ادویات اور بیجوں کو بہتر بنانے کیلئے نہیں بنائی جو زراعت کی پیداوار کو بڑھانے میں مددگار ہو سکے۔ یہ بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ ہمیں تقریباً 30ارب کی دوائیں درآمد کرنا پڑتی ہیں، یہاں مکمل طور پر اپنے خام مال اور پرزوں کے ساتھ ٹریکٹر بنانے کا کوئی ادارہ نہیں ، بیج پیدا کرنے کی انڈسٹری کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی یہاں تک کہ آلو جیسی اہم سبزی کے بیج بھی یورپ سے درآمد کرنا پڑتے ہیں۔