پاکستان میں خواتین کو کس حد تک جنسی تشدد کا سامنا ہے۔۔۔ حقیقت جان کر آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 09, 2017 | 20:50 شام

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک )مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے سربراہ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی 93فیصد خواتین کو جنسی تشد د کا سامنا ہے۔ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ”مددگار نیشنل ہیلپ لائن 1098“اور” نیشنل کمشنر برائے اطفال “کے سربراہ ضیا ءاحمد اعوان نے بین الاقوامی آرگنائزیشنز کے اعدادو شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں 70فیصد خواتین اور لڑکیاں اپنی زندگی کے دوران جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ 93فیصد خواتین کو عوامی مقامات

پر کسی نہ کسی طرح کے جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ضیاءاحمد اعوان نے مزید کہا کہ اگر لوگوں کو واقفیت ہو تو ہماری ویب سائٹ پر متاثرہ خواتین کی کالز کا سیلاب ہوتا کیونکہ سندھ اور پنجاب بھر میں میڈیا پر صرف 10فیصد کیسز رپورٹ ہوئے جب کہہ جنسی زیادتی کے حوالے سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں میڈیا پر آنے والے واقعات اس سے بھی کم تھے ۔
انہوں نے کہا کہ بچوں اور خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے حکومت کو سخت سے سامنے آنا چاہئے اور ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر نا چاہئیے ۔”ہمارے لیے ہر دن خواتین کا دن ہونا چاہئیے کیونکہ غیر موثر سوشل جسٹس سسٹم پاکستان میں مختلف اقسام کے تشدد کی وجہ ہے “۔ضیاءاحمد اعوان نے اپنے بیان میں کہا کہ بچوں کی شادیاں ، جنسی تشدد ، گھریلو تشدد، کاروکاری ، اغوا اور ہراسگی جیسے زیادہ تر جرائم خواتین کے ساتھ پیش آئے جو پاکستانی قوانین میں سختی سے ممنوع ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں قوانین کا اطلاق نہیں ہے اور لوگوں میں آگاہی کا فقدان ہے ۔
انہوں نے خواتین کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے لوئر کورٹس میں خصوصی عدالتوں اور تھانوں میں خصوصی سیل قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں جنسی بنیاد پر پیش آنے والا سائبر وائلنس عروج پر ہے جبکہ بچے اور نوجوان اس کا بڑا ہدف ہیں ۔ورلڈ اکنامک فورم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہم جس رفتار سے چل رہے ہیں اس لحاظ سے جنسی خلاءکو پورا کرنے میں مزید 169سال درکار ہونگے ۔
مددگار ہیلپ لائن کے جنرل مینیجر محمد علی بلگرامی نے کہا کہ ہیلپ لائن پر رپورٹ ہونے والے مجموعی کیسز میں سے خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تعداد 56فیصد تھی جبکہ بچوں کیساتھ جنسی تشدد کے 16فیصد ، لڑکیوں کیساتھ 15فیصد اور مردوں کے ساتھ13فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ سے 7561واقعات رپورٹ کیے گئے جبکہ بلوچستان میں جنسی تشد د کے سب سے کم 306واقعات رونما ہوئے ۔”کشیدگی ، ٹارگٹ کلنگ ، قانون کی عملداری نہ ہونے اورمجموعی سماجی ، ثقافتی ، تہذیبی اور مذہبی پابندیاں پاکستان میں لوگوں خصوصا“ خواتین اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کے بارے میں بات کرنے سے روک دیتی ہیں “۔2016ءکے دوران رپورٹ ہونے والے کیسز کی نیچر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلگرامی نے کہا کہ ان میں 118واقعات بچوں کی شادیوں ، سائبر کرائم کے 162، بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے 14، گھریلو تشدد کے 2092، جبری شادی کے 14، ہراسگی کے 562، کاروکاری کے 12، بچوں کے لاپتہ ہونے کے 2251، خواتین کی گمشدگی کے 213، ذہنی تشدد کے 792، ریپ کے 5،ہم جنس پرستی کے 6، جنسی ہراسگی کے 10، جنسی استحصال کے 7اور انسانی سمگلنگ کے 5کیسز ریکارڈ ہوئے۔اور یہ سب کسی بھی ملک کی پسماندگی کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔۔۔ ہمارے ملک میں کس حد تک مغرب کا راج ہو چک اہے اس کا اندازا باخوبی کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔