رات کی تاریکی میں عزت گنوا بیٹھنے والی اداکارائیں اور موقع کی تاک میں بیٹھے رائٹرز و ڈائریکٹرز: صف اول کی ڈرامہ نویس نے پاکستانی ٹی وی انڈسٹری کی اصلیت بیان کر ڈالی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 16, 2017 | 07:50 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) روزنامہ نوائے وقت  کی   معروف   خاتون رائٹر عنبرین  فاطمہ اپنے  ایک سپیشل رپورٹ میں لکھتی ہیں

اس وقت ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں کی کہانیاں اس حد تک بولڈ ہیں کہ شاید ان کو اپنے گھروالوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔کبھی حلالہ جیسے موضوع کو ڈرامے کی کہانی میں مذاق بنایا جا تا ہے تو کبھی شادی شدہ عورتوں اور مردوں کے افئیرزپر مبنی کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں ۔حال ہی میں ٹی وی پر چلنے وا

لے ایک ڈرامے کی کہانی نے تو تمام حدیں ہی پھلانگ لی ہیں اس میں ڈرامے کی ہیروئین اندھیرے میں اپنے کزن کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے اسے مجرم کا پتہ بھی نہیں کہ کون تھا اور اب دکھایا جا رہا ہے کہ وہ لڑکی ماں بننے والی ہے یوںاس واقعہ کو بیس بنا کر کہانی اخلاق سوز طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ٹی وی چینلز کی تعداد زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے ڈرامہ زیادہ بننے لگا ۔ یوں ان فنکاروں کو بھی کام ملنے لگا جو بے روزگار تھے ۔اس حد تک تو ہم مطمئن ہیں لیکن اب باقاعدہ طور پر چینلز کا ریٹنگ کےلئے اپنی مرضی کے ڈرامے بنوا کر چلانے کے عمل نے شاید ڈرامہ کو اس کی اصل حالت میں نہیں رہنے دیا ہے ۔ایک وقت تھا جب فنکاروں کو مد نظر رکھ کر کہانیاں لکھی جاتی تھیں اور رائٹر کو پوری آزادی ہوتی تھی کہ وہ کہانی سے انصاف کےلئے اپنی مرضی کے مطابق لکھے لیکن اب ایسا نہیں اب تو پرڈیوسر اور رائٹر و دیگر کو چینلز بلوا کر بتاتے ہیں کہ ہمیں اس قسم کی کہانی اور فنکار چاہییے رائٹر کو بتایا جاتا ہے کہ آپ نے کہانی کس طرح لکھنی ہے ۔چینل کو صرف ریٹنگ سے غرض ہوتی ہے اس لئے وہ ایسی کہانی / ڈرامے کو ترجیح دیتے ہیں جس کو ریٹنگ زیادہ ملے لوگوں میں زیادہ ڈسکس ہو ۔اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ڈائیلاگز جتنے بولڈ ہوں گے اور کہانی جتنی ناقابل دید ہو گی اتنی زیادہ ریٹنگ ملے گی۔فلمی صنعت کو نان پروفیشنلز لے ڈوبے تھے لیکن اب ڈرامے کو ریٹنگ لے ڈوبے گی ۔عورتوں کے گرد گھومتی کہانیاں ہر طرف ہر چینل پر نظر آرہی ہیں ڈرامہ بنانے والوں سے جب سوال کیا جاتا ہے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ڈرامے کی بڑی تعداد میں آڈینز عورت ہوتی ہے۔ اس لئے ہم ایسا ڈرامہ بناتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ڈرامے کی کہانیاں اتنی بولڈ کیوں بنائی جا رہی ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں اب ان سے کوئی پوچھے کہ بداخلاقی کو پھیلانا اور معصوم ذہنوں کو غلط روی کے بارے سوچنے پر مجبور کرنا کس معاشرے کی عکاسی ہے؟ پاکستان میں ریٹنگ کے نام پر جو خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ ڈرامہ سمیت ہر قسم کے میڈم کی آڈینز کو ناراض کر دے گا ۔عورت کو اور اس کے مسائل کو ڈرامہ کی کہانیوں میں مذاق بنا کرکھ دیا گیا ہے۔فنکاروں کو اس میںہم بہت حد تک قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے اپنا گھر کا کچن چلانا ہے لیکن پھر بھی فنکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی حد تک خرافات بھری کہانیوں کی حوصلہ شکنی کریں ۔لیکن کوئی بھی فنکار اتنا بڑا رسک لینے کو تیار نہیں کیونکہ وہ ایسا کرے گا تو اسکو کام نہیں ملے گا ، اور اگر کام نہیں ملے گا تو وہ گھر کا کچن کیسے چلائے گا معاملات زندگی کو کیسے چلائے گا ۔ حیرت تو یہ ہے کہ پیمرا بھی ان چیزوں کا نوٹس نہیں لے رہا ہے ۔ ماضی میں جھانکیں تو ستر ،اسی اور نوے کی دہائی کے ڈرامے کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں اس وقت کے ڈراموں کی خاص بات یہ تھی کہ اس وقت لکھاری سے لیکر اداکار نیز ہر ایک کو کام کرنے کےلئے بھرپور وقت دیا جاتا تھا۔ آرٹسٹوںکو ریہرسلز کروائی جاتیں تھیں، آرٹسٹوں کو بارہ بارہ منٹ کے ڈائیلاگز بھی یاد ہوتے تھے ۔لکھاری کو ڈکٹٹیٹ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ کہانی ایسی لکھی جاتی تھی جو صحیح معنوں میں معاشرے کی عکاسی کرتی تھی۔اس وقت ڈرامہ بہت زیادہ بن رہا ہے ریہرسل تو دور کی بات ہے آج آرٹسٹ سیٹ پر آتا ہے، اس کو اس کے حصے کے ڈائیلاگ دے دئیے جاتے ہیں جسے وہ اسی وقت یاد کرکے بول دیتا ہے۔ ان سب کمزوریوں کی وجہ آرٹسٹوں کی مصرو فیت ہے۔آج ہر پرڈیوسر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے ڈرامے کو اتنی ریٹنگ ملے کہ ریٹنگ کے تمام ریکارڈز ٹوجائیں ۔ریٹنگ کےلئے حیا سے عاری کہانی کا ہونا ایک لازمی امر تصور کیا جانے لگا ہے یہ رجحان خطرناک حد تک ڈرامے کی روح کو متاثر کررہا ہے ۔ اس حوالے سے ہم نے معروف رائٹر ”حسینہ معین“ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں تو ٹی وی دیکھ دیکھ کر حیران ہوتی ہوں کہ کس قسم کی کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں اس سے زیادہ حیران ان کو بنانے اور ان میں کام کرنے والوں پر ہوتی ہوں ۔اب ڈرامہ بنانے والے بزنس مین ہیں انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ڈرامہ بنانا کیا ہوتا ہے ان کو ڈرامے سے آنے والے پیسے سے غرض ہوتی ہے اگر بزنس ہی کرنا ہے تو ٹھیلہ لگا لیں معاشرے کو مت بگاڑیں ۔میں مانتی ہوں کہ ہمارے ہاں بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اس طرح سے اور اتنی آزادی سے نہیں ہو رہا ہے جس طرح سے ڈراموں میں کھل کر دکھایا جا رہا ہے ان سے بات کی جائے تو ان کہنا ہوتا ہے کہ ہم معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں او بھائی اگر اس کو معاشرے کی عکاسی کرنا کہتے ہیں تو پھر افسوس ہے ایسی عکاسی پر ۔برائی کو دکھانااور پھیلانا برائی سے بھی بڑی برائی ہے۔صرف برائیاں دکھانا اور اس کا برا انجام نہ دکھانا ہی لوگوں کو برائی کرنے کاحوصلہ دیتا ہے ۔ ڈرامے میں گھر میںکام کرنے والی ماسی مالک کے پیچھے پڑی دکھائی جا رہی ہے یعنی اگر ماسی ڈرامہ دیکھ رہی ہے تو اس کو ڈرامے کے ذریعے ترغیب دی جارہی ہے کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی مالک کو اپنے عشق میں گرفتار کر سکتی ہے ۔عورت کو مردوں کے پیچھے بھاگتے بھی دکھایا جا رہا ہے ،عورت کو کمزور بھی دکھایا جا رہا ہے کہیں اس کو مار کھاتا دکھایا جا رہا ہے کہیں اس کی دو دو شادیاں کروائی جا رہی ہیں کہیںاسے غیر اخلاقی کام کرتے دکھایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ عورت کے کردار کو مسخ کرنے کے مترادف نہیں ہے تو کیا ہے ؟۔اکثر گھرانوں میں ٹی وی ڈرامے دیکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ میں نے تو خود ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ڈرامے پر یہ وقت بھی آنا تھا ۔اس وقت پیسے والے کا ڈرامہ چل رہا ہے جو زیادہ پیسے ادا کر رہا ہے اس کا ڈرامہ ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے ۔ڈراموں کی کہانیاں ایسی ہی ہیں کہ گھر کے آگے کیچڑ پھیلا یا جا رہا ہے لیکن اسے سمیٹنا کسی کی ذمہ داری نہیں۔ معاشرے میں بہت کچھ ہے ٹھیک ہے بنائیں بولڈ موضوعات پر فلمیں جس نے دیکھنی ہو گی دیکھے گا جس نے نہیں دیکھنی ہو گی نہیں دیکھے گا لیکن ڈرامے کو اس کی اصل حالت میں رہنے دیں کیونکہ یہ ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے۔ فیملیز ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتی ہیں بعض اوقات تو ایسے ایسے ڈائیلاگز سننے کو ملتے ہیں کہ بچے ان کا مطلب پوچھ لیں تو سمجھ نہیں آتی کہ کیا جواب دیں ۔اب ”بلبلے“ کواگر میرٹ پر دیکھیں تو دور دور تک وہ ڈرامہ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا لیکن ہلا گلہ ہے لوگ دیکھ رہے ہیں اس کو سب سے زیادہ ریٹنگ ملنے والا ڈرامہ قرار دیا جا رہا ہے تو باقی پھر تبصرہ کیسا ؟۔ڈرامہ ہمیشہ ارد گرد کی کہانیوں سے ہی بنتا ہے لیکن یہ لکھنے والے پر ہے کہ وہ کتنا قابل ہے کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سمندر سے سیپیاں چنتے ہیں اور کئی لوگ اسی سمندر سے کیڑے مکوڑے چن لیتے ہیں ۔آج تو ڈرامہ بطور فن بنایا جا رہا ہے جبکہ ڈرامہ مکمل طور پر ایک آرٹ ہے اور اب ڈرامہ آرٹ کی دنیا سے نکال کر تماشا بنا دیا گیا ہے ۔ہمارے دور میں بہت ہی پروفیشنل انداز میں کام ہوتا تھا۔ رائٹر کا لکھا ہوا ڈرامہ اسکرپٹ ایڈیٹر پڑھا کرتا تھا جب تک وہ اوکے نہیں کرتا تھا ڈرامہ نہیں بنتا تھا ۔کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اسکرپٹ سے کچھ لائنز کاٹ دی جاتی تھیں یا تبدیل کرنے کو کہہ دیا جاتا تھا لیکن اب تو اسکرپٹ ایڈیٹر کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ہمارے دور میں لکھے جانے والے ڈرامے سے لوگوں کی اخلاقی تربیت ہوتی تھی ،زبان کی درستگی ہوتی تھی ۔یہ ریٹنگ کیا بلا ہے مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کون بناتا ہے ریٹنگ کہاں سے آتی ہے اس کو ماپنے کا پیمانہ کیا ہے میری سمجھ سے باہر ہے ۔