پاکپتن کے درویش حضرت شیخ العالم ........حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 13, 2017 | 06:59 صبح

حضرت شیخ العالم بابا فریدگنج شکرؒ کے سالانہ عرس کی تقریبات پاکپتن میں بااہتمام اور زور و شور سے ہوتی ہیں‘ بہشتی دروازہ کھلتا ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سلسلہ چشتیہ کے تیسرے بڑے پیشوا ہیں‘ انہیں حضرت خواجہ بختیار کاکی نے خلافت عطا کی اور حضرت خواجہ بختیار کاکی کو خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے خلافت مرحم فرمائی تھی اور بعد ازاں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے حضرت نظام الدین اولیاءکو خلافت عطا فرمائی۔ آپ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ سلس

لہ چشتیہ کے دور روحانی پیشوا حضرت خواجہ معین الدین چشتی ا جمیری اور حضرت خواجہ بختیار کاکی نے آپ کو بیک وقت ہاتھ پکڑ کر تصوف اور سلوک کی منازل طے کرائیں۔ آپ نے دارالحکومت یا کسی بڑے شہر کی بجائے ایک سنسان بے آباد دور افتادہ اور پسماندہ علاقے اجودھن کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں رشد و ہدایت کی وہ شمع روشن کی جس نے پورے جنوبی پنجاب کو منور کر دیا اور اسی شمع کی کرنوں سے حضرت نظام الدین اولیاءاور حضرت صابر کلیر شریف نے دہلی اور برصغیر کو منور کیا۔
چور اندھا ہوگیا۔
آپ کی والدہ ماجدہ نہایت عابدہ‘ زاہدہ اور تہجد گزار خاتون تھیں‘ ایک رات وہ نماز تہجد ادا فرما رہی تھیں کہ اسی اثناءمیں ایک چور گھر میں داخل ہوگیا۔ اندر آتے ہی اس کی بینائی چلی گئی‘ وہ سخت پریشان اور دیواروں سے ٹکراتا رہا۔ اس نے گھبراہٹ میں آواز دی کہ اس گھر میں کوئی ایسی برگزیدہ ہستی ہے جس کی ہیبت سے میری بینائی چلی گئی ہے‘میں اس ہستی سے وعدہ کرتا ہوں کہ بینائی ملنے پر چوری سے تائب ہو جاﺅں گا۔ آپ کی والدہ محترمہ نے اس کی التجا پر خدا کے حضور دعا کی جس کے بعد چور کی آنکھیں پہلے کی طرح روشن ہوگئیں۔ اگلی صبح وہ چور اپنے اہلخانہ سمیت ان کے در پر حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا۔ اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا گیا۔
فرید درویشوں کا خاندان منور کرنے والی شمع
فرید دریشوں کا خاندان منور کرنے والی شمع
سلطان الہند حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ ‘ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے ہاتھ پر دو مرتبہ شرف بعیت حاصل کر چکے تھے‘ اس دوران خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے پاس تشریف لائے تو حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے ان کا تعارف ہوا تو انہیں دیکھتے ہی سلطان الہند نے تاریخی جملہ کہا ”بابا بختیارا تم نے عظیم شہباز کو قید کر لیا ہے جو سدرة المنسہی سے کم کسی مقام پر آشیانہ نہیں بنانا چاہتا۔ یہ فرید ایسی شمع ہے جس کی بدولت درویشوں کا خاندان منور ہوگا۔“
دس بادشاہوں کا دور دیکھا۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے اپنی حیات مبارکہ کے نوے سالوں میں دس بادشاہوں کا دور دیکھا جن میں شہاب الدین محمد غوری‘ قطب الدین ایبک‘ آرام شاہ‘ سلطان شمس الدین التمش‘ رکن الدین فیروز شاہ‘ رضیہ سلطانہ‘ معزالدین بہرام‘ شاہ علاﺅالدین مسعود شاہ‘ سلطان ناصرالدین محمود اور غیاث الدین بلبن شامل ہیں۔
علاقے کے مکینوں کو اپنے پروں کی حفاظت میں لے لیا۔
ضیاءالدین برنی نے اپنی مشہور زمانہ تالیف میں کیا خوب کہا ہے کہ ”انہوں نے اس علاقے کے باشندوں کو اپنے پروں کی حفاظت میں لے لیا۔
چالیس سال وہی کیا جو رب نے چاہا۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کو یہ مقام و مرتبہ بغیر کسی عبادت و ریاضت مجاہد ہے صبر‘ توکل‘ قناعت اور خدمت خلق کے حاصل نہیں ہوا تھا‘ انہوں نے خود کو خالق مطلق کی منشا اور رضا کے مطابق ڈھال لیا تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے فرمایا 40 سال تک مسعود نے وہی کچھ کیا جو اس کے رب نے چاہا اور اب جو مسعود کہتا ہے اس کا رب وہی کرتا چلا جاتا ہے۔“
مجھے قینچی نہ دو میں کاٹنے والا نہیں :
حضرت سلطان المشائخ‘ سلطان جی ”فوائد الفواد میں اپنے پیرو مرشد حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے احوال اقوال اور ملفوظات تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ العالم بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت میں ان کے ایک عقیدت مند نے بطور نذر قینچی پیش کی تو آپ نے فرمایا۔
”مجھے قینچی نہ دو میں کاٹنے والا نہیں ہوں۔
”مجھے سوئی دو کہ میں جوڑنے والا ہوں۔“
تین باتوں سے اجتناب کرنے والے۔
 حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ اپنے مریدین کو ایک بزرگ کا حوالے دیتے ہوئے فرماتے ہیں : جب ایک آدمی تین باتوں سے اجتناب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے تین چیزیں اٹھا لیتا ہے۔
1۔ جو شخص زکوة ادا نہیں کرتا‘ اللہ تعالیٰ اس کے دل سے برکت اٹھا لیتا ہے۔
2۔ جو شخص قربانی نہیں کرتا‘ اللہ تعالیٰ اس سے عافیت چھین لیتا ہے۔
3۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا‘ اللہ تعالیٰ مرنے کے وقت اس سے ایمان کو جدا کر لیتا ہے۔
سونے کیلئے کمبلی اتنی چھوٹی تھی کہ پائنتی کھلی رہی۔
 آپ کے محبوب خلیفہ محبوب الٰہی حضرت نظام االدین اولیاء”فوائد الفواد“ میں فرماتے ہیں۔
ایک رات میں حضور کے سوتے وقت موجود تھا‘ ایک جنگلی چارپائی بچھائی گئی اوپر وہ کمبلی بچھائی گئی جس پر حضرت دن کو بیٹھتے تھے اور وہ کمبلی اتنی چھوٹی تھی پائنتی کھلی رہتی تھی اور اس جگہ جہاں آپ کے پاﺅں مبارک ہوتے‘ ایک کپڑا ڈال دیا جاتا‘ اگر رات کو وہ کپڑا آپ اوڑھ لیتے تو وہ جگہ بستر سے خالی ہو جاتی۔
کُل چار جوڑے :
آپ ہمیشہ سادہ اور عام لباس زیب تن فرماتے اور وہ بھی اکثر پھٹا ہوتا۔ ہانسی ضلع حصار میں مولانا نورترک کا وعظ سننے پہنچے تو اس وقت بھی آپ کے کپڑے بہت پرانے اور پھٹے ہوئے تھے‘ حضرت سید محمد حسینی گیسودراز فرماتے ہیں کہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے پاس کُل چار جوڑے تھے‘ ایک پہنے رہتے اور دوسرا دھلانے والے کے پاس رہتا‘ تیسرا مستحقین کی تقسیم کیلئے موجود رہتا جسے آپ وقت بے وقت اور خاص مشغولی میں استعمال فرماتے چلہ گاہیں۔
 حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی برصغیر پاک و ہند میں بہت سی چلہ گاہیں مشہور ہیں جن میں اُچ شریف‘ بہاولپور‘ ہانسی ضلع حصار‘ لاہور (ضلع کچہری) شکرپڑیاں‘ فرید پور‘ ضلع بریلی‘ کلر کہار‘ گجرات‘ جوتانہ ضلع جہلم‘ ہوشیار پور‘ پیر محل‘ کوٹ مومن‘ قصور‘ چشتیاں‘ قصبہ چاولی مشائخ ضلع وہاڑی‘ لاہوت المکاں بلوچستان‘ جھانگڑ دلاگل‘ پختو چک ضلع امرتسر‘ فرید کوٹ بھارت ور دیگر شامل ہیں۔
بال کی کرامت:
شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا فرماتے ہیں: اجودھن میں حضرت بابا فرید گنج شکر کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ اس اثناءمیں آپ کی داڑھی مبارک سے ایک بال گرا، جو میں نے فوراً اٹھا لیا اور آپ سے عرض کی کہ اگر اجازت مرحمت فرمائیں تو اسے تعویز بنا لوں، حضرت بابا فرید گنج شکر نے اجازت دے دی، میں نے اس بال مبارک کو با اہتمام کپڑے میں باندھ کر محفوظ کر لیا اور دہلی میں جو کوئی بھی بیمار میرے پاس آتا اسے یہ تعویز اس شرط پر دیتا کہ وہ درست ہونے کے بعد اسے واپس لوٹا دے گا، میں نے جسے بھی یہ تعویز دیا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیشہ صحت یاب ہوا۔ ایک مرتبہ میرے عزیز دوست تاج الدین مینائی کا لڑکا سخت علیل ہوا اور وہ یہ مبارک تعویز کے لئے حاضر ہوئے لیکن حکم خدا سے تلاش کرنے کے باوجود بھی طاق میں رکھا، یہ تعویز مجھے نہ ملا اور تاج الدین کا صاحبزادہ انتقال کر گیا، کچھ عرصہ بعد ایک اور صاحب تعویز کے لئے آئے تو یہ تعویز وہیں طاق سے فوراً مل گیا چونکہ تاج الدین کے بیٹے کی قسمت میں شفا نہ تھی اسی لئے یہ مبارک تعویز وہاں سے گم ہو گیا اور بعد ازاں وہیں سے مل گیا۔
زمین کی شہادت :
ایک شخص نے حاکم شہر کے ہاں آپ کی اراضی پر ملکیت کا ناجائز دعویٰ دائر کر دیا، حاکم نے آپ کو ملکیتی ثبوت کرنے کا پیغام بھجوا دیا، آپ نے کہلایا کہ لوگوں سے پوچھ لو یہ زمین کس کی ہے، حاکم شہر جواب سے مطمئن نہ ہوا اور ثبوت پیش کرنے کا تقاضا کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس گردن شکستہ کو کہہ دو کہ میرے پاس کوئی سند ملکیت نہیں اور نہ ہی کوئی گواہ پیش کروں گا، اگر ملکیت تحقیق ہی درکار ہے تو اس خطہ زمین سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کس کی ملکیت ہے، حاکم یہ جواب سن کر سخت حیران ہوا اور اس دعویٰ کی حقیقت جاننے کے لئے مذکورہ قطعہ اراضی پر پہنچ گیا، اس اثناءمیں لوگوں کا جم غفیر بھی وہاں جمع ہو گیا، حاکم نے مذکورہ قطعہ اراضی سے دریافت کیا کہ ہاں تو بتا کہ تیرا مالک کون ہے؟ زمین نے با آواز بلند جواب دیا، حضرت شکر گنج کی ملکیت ہوں اور ایک عرصہ سے ان کے قبضہ میں ہوں، قطعہ زمین کی یہ بانگ دہل گواہی سن کر لوگ سخت متعجب ہوئے، ادھر حاکم شہر جب گھوڑے پر سوار ہو کر پہنچا اور گھوڑے سے اترتے ہوئے سر کے بل گرنے سے اس کی گردن ٹوٹ گئی اور حضرت کی زبان مبارک سے گردن شکستہ کا جملہ پورا ہو گیا۔
مٹی سونا بن گئی:
آپ کے در سے کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہ جاتا، آپ ہر ایک کی حاجت پوری کرتے اور حسن سلوک سے پیش آتے، ایک مرتبہ ایک خاتون حاضر ہوئی کہ یاحضرت میری تین جوان بیٹیاں ہیں، جن کی شادی کرنی ہے، آپ مدد فرمائیں، آپ نے خدام سے کہا کہ جو کچھ بھی درگاہ پر موجود ہے وہ خاتون کو دے دو، وہ کہنے لگی آج کچھ بھی باقی نہیں بچا، یہ سن کر وہ خاتون رونے لگی کہ میں بہت مجبور ہوں اور آس لیکر آئی ہوں، آپ نے فرمایا: کہ جاﺅ باہر سے ایک مٹی کا ڈھیلا اٹھالاﺅ، وہ مٹی کا ڈھیلا اٹھالائی، آپ نے بلند آواز سے سورة اخلاص پڑھ کر اس پر دَم کیا تو وہ مٹی کا ڈھیلا سونا بن گیا، یہ دیکھ کر سب بہت حیران ہوئے، خاتون سونا گھر لے گئی اور گھر جاکر اس نے بھی پاک صاف ہوکر سورة اخلاص پڑھ کر مٹی کے ڈھیلے پر دَم کیا مگر وہ سونا نہ بن سکا، ناچار وہ آپ کے در پر حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا حضرت آخر کون سی کمی تھی جو مٹی سونا نہ بن سکی، تو آپ نے فرمایا کہ تو نے عمل تو وہی کچھ کیا مگر تیرے منہ میں فرید کی زبان نہ تھی۔
خوب برادرانہ تقسیم کی:
سیستان کے رئیس نے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے ایک مرید عارف کے ہاتھ سو دینار ان کی خدمت میں نذر کے لئے بھیجے، مرید نے یہ سوچتے ہوئے کہ حضرت بابا کو کیا خبر ہوگی، اس میں سے پچاس اپنے پاس رکھ لئے اور پچاس آپ کی خدمت میں پیش کردئیے، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے اس کی جانب مسکرا کر دیکھا اور فرمایا: ”خوب برادرانہ تقسیم کی“ مرید عارف سخت شرمندہ اور معافی کے خواستگار ہوگئے۔ آپ نے نہ صرف معاف کیا بلکہ اپنے پاس رکھا اور انہیں کامل بنا کر بیعت کی اجازت بھی عطا کی۔
حضرت شکر گنجؒ کی شاعری ”گرنتھ صاحب“ کا حصہ:
حضرت بابا فریدؒ کو پنجابی زبان کا پہلا شاعر مانا جاتا ہے، یوں تو آپ کو عربی اور فارسی پر بھی مکمل عبور تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے شاعری کے لئے مقامی زبان پنجابی کو ذریعہ اظہار بنایا تاکہ ناصرف یہاں کے لوگوں کے دلوں کی ترجمانی ہوسکے بلکہ پنجابی شاعری کے ذریعہ ان کے دلوں میں گھر بھی کیا جاسکا۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی شاعری اس قدر مقبول ہوئی کہ سکھوں نے اپنی مذہبی کتاب ”گرنتھ صاحب“ میں بھی اسے شامل کرلیا اور ان کے تیس اشعار گرنتھ صاحب میں شامل ہیں ان کے یہ اشعار شلوک فرید اور بول فرید کے نام سے گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔
حضرت نظام الدین اولیاءسے محبت و شفقت:
حضرت محبوب الٰہی، سلطان جی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءجب پہلی مرتبہ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو انہیں دیکھتے ہی آپ نے بے ساختہ یہ شعر کہا جو آج بھی آپ کے مزار مبارک کی بیرونی دیوار پر درج ہے۔
اے آتش فراقت دل ہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
”تیری آتش فراق نے دلوں کو کباب بنا دیا ہے اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو ویران کردیا ہے“۔
حضرت نظام الدین اولیاءکا حضرت بابا فرید گنج شکرؒ سے والہانہ عشق بھی بھی اپنی مثال آپ ہے،ان کی ان دیکھی محبت کا گرفتار اور اسیر ہونا، بعد ازاں دہلی میں حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کی صحبت میسر آنا، دہلی سے حضرت کی زیارت کے لئے بار بار دہلی آنا کوئی کم نہ تھا، سینکڑوں میل کا پُرخطر راستہ جنگل پہاڑ، خونخوار جانور، سانپ اور سفری صعوبتیں کچھ کم نہ تھیں، پھر حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کا اس گوہر آبدار کو سلسلہ چشتیہ نظامیہ کا گوہرآبدار بنانا کوئی کم معنی نہیں رکھتا، یہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءاپنے پیرومرشد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بابا صاحب کے حسن مبارک، لطافت تقریر، اور شیرینی گفتار کا یہ عالم تھا کہ مخالف کے دل پر اثر ہوتا تھا حلاوت ایسی تھی کہ الفاظ کانوں میں رس گھولتے تھے اور سننے والا سوچتا تھا کاش! غایت ذوق کی کیفیت میں اس وقت دم نکل جائے تو کتنا اچھا ہے۔ شاید اسی لئے حضرت بابا صاحب کو گنج شکرؒ کہا گیا ہے۔ خواجہ صاحب نے خدمت شیخ میں پہنچنے سے پہلے دل ہی دل میں طے کرلیا تھا کہ شیخ معظم کی زبان مبارک سے جو کچھ سنوں گا اسے لکھ لیا کروں گا، چنانچہ حضرت نظام الدین اولیائؒ نے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے ان ملفوظات کو ”راحت القلوب“ کے نام سے تحریر فرمایا۔