سپریم کورٹ نے پانامہ کیس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 23, 2017 | 07:33 صبح

اسلام آباد(مانیٹرنگ)سپریم کورٹ نے پانامہ کیس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا.سے بعد میں سنایا جائے گا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کے حوالے سے آئینی درخواستوں کی سماعت میں درخواست گزار وں اور جوابدہندہ کے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جسے بعد میں سنایا جائے گا ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اپنا ذہن اپلائی کرنے کے بعد کیس کا مختصر فیصلہ نہیں دے گی بلکہ تفصیل

ی فیصلہ سنایا جائے گا ۔ایسا کیس نہیں جس میں فوری یا مختصر فیصلہ سنایا جا سکے ۔’فیصلہ اپنی عقل و دانش کے مطابق دیں گے“۔یہ وہ کیس نہیں جس پر مختصر حکم دیا جائے۔ایسا فیصلہ دیں گے کہ فریقین 20سال بعد بھی درست مانیں ۔کیس کا ہر پہلو سے جائزہ لیکر فیصلہ سنایا جائے گا۔سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق کوئی وضاحت نہیں آئی جبکہ اس کے واجبات 63ملین درہم سے زیادہ تھے ۔ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب میں بھی سچ نہیں کہا اور نہ ہی کبھی قطری فیملی سے تعلقا ت کا اظہار کیاجس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جو بات پہلے کر چکے ہیں اسے دہرا کر وقت ضائع نہ کریں ۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ انصاف صرف پسند کا فیصلہ ہو گیا ہے فیصلہ مرضی کا نہ ہو تو ججز پر رشوت اور سفارشی کا الزام لگتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جج ہی نااہل ہیں ۔ ”سب کیلئے انصاف وہی ہے جو ان کی مرضی کا ہو “۔ فیصلہ حق میں آئے تو کہا جاتا ہے کہ ان سے اچھا منصف کوئی نہیں ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ گلف سٹیل کے واجبات سے متعلق آپ کی درخواست میں کوئی بات نہیں اور نہ ہی ابتدائی دلائل میں آپ نے یہ بات کی ۔آپ ہمیں خصوصی یا احتساب عدالت سمجھ کر فیصلہ لینا چاہتے ہیں ۔” عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے“۔متناز ع دستاویز کو چھان بین کے بغیر کیسے تسلیم کر یں ؟ کیا ایسی دستاویز ات کو ثبوت مانا جا سکتا ہے ؟۔عدالت صرف آج کیلئے مقدمہ نہیں سن رہی بلکہ عدالت ہمیشہ آنے والے وقتوں کیلئے فیصلہ دیتی ہے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دونوں فریقین کی دستاویزات تصدیق شدہ ذرائع سے نہیں آئیں تاہم ان دستاویزات کا ایک ہی پیمانے پر جائزہ لیں گے ۔ادائیگی کس سال میں کی گئی وہ بھی نہیں لکھا ۔غیر تصدیق شدہ دستاویزات مسترد تو 99.99فیصد کاغذات فارغ ہو جائےں گے اور ایسی صورت میں ہم واپس اسی سطح پر آجائیں گے ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے نعیم بخاری کو مخاطب کر تے ہوئے استفسار کیا کہ آپ مریم کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں مگر شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز میں نے تیار نہیں کی ۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کچھ نہیں بولا ۔”میرے وزیر اعظم نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی وزیر اعظم نے موزیک فونسیکا کو قانونی نوٹس بھیجا ۔سالہا سال تک قطری مراسم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ، کیا ایسا شخص وزیر اعظم ہو سکتا ہے ؟ قطری نے کہہ دیا کہ قرض کی رقم اس نے ادا کی ، اتنی بڑی رقم بینک کے علاوہ کیسے منتقل ہو گئی ۔
اس کے بعد شیخ رشید نے جواب الجواب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف نے کہا تھا کرپشن کرنے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے ، عدالت کو بتایا جائے کہ دبئی فیکٹری کب اور کیسے لگی اور اس کیلئے پیسہ کیسے باہر گیا ۔ عدالت نے 20سے زائد افرا د کو اثاثے چھپانے پر آرٹیکل 184/3کے تحت نااہل کیا گیا ۔ کرپشن کے خلاف سزا نہ ہوئی تو ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھے گا ۔

.