.پانامہ کیس ایک شخص نہیں قانون کا معاملہ ہے فیصلہ صدیوں یاد رہے گا:سپریم کورٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 12, 2017 | 06:08 صبح

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں اورنج لائن میٹروٹرین منصوبہ لاہور سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ پانامہ لیکس کامقدمہ ایک فرد کا معاملہ نہیں بلکہ قانون کا معاملہ ہے ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ اورنج لائن کامعاملہ انجینئرنگ یا سول انجینئرنگ کا نہیں ہے، اصل مسئلہ تاریخی ورثے کا تحفظ ہے، اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس بات پرعدالت اور شکایت کنندگان ایک صفحے پر ہیں ،عدالت بھی تاریخی و

رثے کا تحفظ چاہتی ہے، ماہرین پر تعصب کاالزام لگانے کی بجائے ان کی رپورٹ میں سقم کی نشاندہی کریں، دیکھنا یہ ہے کہ شکایت کنندگان کے تاریخی ورثہ کے حوالے سے تحفظات درست ہیں کہ نہیں ،تحفظات درست نہ ہوئے تواٹھاکرپھینک دیں گے‘ وکیل نے کہا کہ ٹریک کے ستونوں کی تعمیر اور ٹرین کے چلنے سے پیداہونے والی تھرتھراہٹ کامجموعی جائزہ نہیں لیاگیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیسپاک کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹے میں کتنی ٹرینین ٹریک سے گزریں گی ، ایک گھنٹے میں گزرنے والی ٹرینوں کی مجموعی تھرتھراہٹ کتنی ہوگی ، نیسپاک کے وکیل اس نقطے پر جواب الجواب میں وضاحت کریں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے حضرت علیؓ کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ سے پوچھا میرے سر کے بال کتنے ہیں،حضرت علیؓ نے جواب دیا اگر بالوں کی تعداد بتا دوں تو آپ تصدیق کیسے کریں گے، اورنج ٹرین منصوبے سے متعلق رپورٹس کے غلط ہونے کا تعین کون کرے گا،منصوبے سے متعلق رپورٹس کو ماہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ وکیل نے کہا ڈاکٹر اوپل نے منصوبے کو محفوظ بنانے کیلئے مزید اقدامات کرنے کا کہا تھا، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آپ بتادیں مزید کیا اقدامات ہونے چاہئیں،اس پر نیسپاک کے وکیل نے کہا کہ نیسپاک حکومت کی جانب مزید اقدامات کرنے پر رپورٹ عدالت کو دے چکے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت میں آدھی بات نہ کریں،آپ وہ والی بات کر رہے ہیں۔ نماز کی طرف مت جاؤجبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ اورنج لائن کے پورے منصوبے کوختم کردیا جائے ،کیا صرف تاریخی ورثے کومحفوظ بنانے کے اقدامات کئے جائیں اس پر وکیل نے کہا کہ ماس ٹرانزٹ کے منصوبے میں رکاوٹ نہیں ڈالناچاہتے،تاریخی عمارتوں کے سامنے میٹروٹریک کوزیرزمین گزاراجائے ،اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زیرزمین میٹروٹرین کی تھرتھراہٹ زیادہ خطرناک ہوگی جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیازیرزمین تعمیرات اس وقت ہوسکتی ہیں؟تاریخی عمارتوں کی خوبصورتی متاثرہونے کاپیمانہ کیا ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ میٹروٹرین کورولرکوسٹر نہ بنائیں،زمین سے 45فٹ اوپرچلنے والی ٹرین کو45فٹ زیرزمین لیے جانہ ممکن نہیں ،90فٹ کاغوطہ تورولرکوسٹر بھی نہیں لگاسکتا،جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تاریخی ورثہ جتناآپ کاہے اتناہمارابھی ہے،مناسب وقت پرآپ کی آنکھیں کیوں نہ کھلیں ،اس طرح کے منصوبے عوام کے پیسے سے بنتے ہیں ،کیاعوام کے پیسے کوضائع کردیں ، اس پر وکیل نے کہا کہ تاریخی ورثے کولے کرمیں جذبات کی رومیں بہہ جاتاہوں اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کے جذبات غلط ہیں، آپ نے غلط مثال دی ہے ہمیں معلوم ہے کہ تاریخی ورثے کونقصان ہواتوبوجھ ہم پربھی ہوگا ، درخواست گزار نے دوران سماعت پانامہ لیکس کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کے مقدمے میں کہا تھا کہ ایسا فیصلہ دیں گے جو 20سال تک یادرکھاجائے گا،اورنج ٹرین کیس کو بھی پانامہ کی طرح سنا جائے ،پانامہ کامقدمہ وزیراعظم اور ان کے بچوں سے متعلق تھا، اس پر جسٹس اعجاز فضل نے ریمارکس دیئے کہ پانامہ کامقدمہ ایک شخص کا معاملہ نہیں بلکہ قانون کا معاملہ ہے ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں تک یاد رکھا جائیگا۔