جج نے حسین نواز کے وکیل سے کہہ دیا پھر راول ڈیم پر مچھلیاں پکڑنا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 16, 2017 | 13:05 شام

اسلام آباد (دنیا نیوز ) پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے نیب اور ایف بی آر کے سربراہان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب حدیبیہ پیپر مل اور منی لانڈرنگ کا ریکارڈ پڑھ کر ساتھ لائیں ، عدالت سوال کرے گی ، حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ، منروا کمپنی سے سروسز کا معاہدہ اور دیگر ریکارڈ پیش کردیا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کے روبرو حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل کرلئے ۔ سلمان
اکرم راجہ نے عدالت میں حسین نواز اور منروا کمپنی کے درمیان ہونے والے معاہدہ اور منروا کمپنی کی انوائسز پیش کیں ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ منروا کمپنی نے معاوضے کی جو انوائسز جاری کیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منروا کمپنی کو خدمات کی مد میں رقم کی ادائیگی کیسے ہوئی ۔ دو ہزار چودہ میں منروا کمپنی کو چھ ہزار چھ سو پائونڈ ادا کئے گئے ، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں ، یہ جاننا چاہتے ہیں کہ نیلسن اور نیسکول کے ڈائریکٹرز کون ہیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ منروا کمپنی کے منتظم نے نیلسن اور نیسکول کیلئے اپنے ڈائریکٹرز دیئے ۔ حسین نواز اپنے نمائندے فیصل ٹوانہ کے ذریعے منروا کمپنی کو ادائیگی کیا کرتے تھے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ معاملہ ان دستاویزات کا ہے جن سے حسین نواز کا فلیٹس سے براہ راست کنکشن ملے ۔ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی مجاز نمائندہ تھیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جولائی دو ہزار چھ میں منروا کمپنی کے نام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے ۔ دو ہزار چودہ میں منروا کمپنی کی جگہ ٹرسٹی سروسز کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ فروری سے جولائی دو ہزار چھ تک مریم نواز ٹرسٹی شیئر ہولڈر تھیں ۔ جولائی دو ہزار چھ میں بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی پر مریم نواز کی شیئر ہولڈر حیثیت ختم ہوگئی اور اس کے بعد سے ان کی حیثیت صرف ٹرسٹی کی ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک آف شور کمپنیوں کے حصص منروا اور ٹرسٹی سروسز کے پاس ہی ہیں ۔ فروری سے جولائی دو ہزار چھ تک بیریئر سرٹیفکیٹس مریم نواز کے پاس تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا جولائی دو ہزار چھ میں مریم نواز کی ٹرسٹی کی حیثیت ختم ہوگئی تھی ؟ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفشل مالک ہیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جب جولائی دو ہزار چھ میں بیریئر شیئرز منسوخ ہوئے تو مریم نواز ٹرسٹی رہیں ۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ انہوں نے منروا کمپنی کی کسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے ۔ جس شخص نے یہ دستاویز پیش کی ہے وہ بتائے کہ یہ کہاں سے لائی گئی ہیں ۔ مریم نواز سے متعلق جعلی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر لائی گئیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ منروا کمپنی کے نمائندے نے بھی مریم نواز کی زیردستخطی دستاویز کی تردید کی ہے ، آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کی ملکیت سے متعلق آپ کی چین مکمل ہے ، جس کسی کو شک و شبہ ہے وہ ثابت کرے ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر مریم نواز زیر کفالت ثابت ہو بھی جائیں تب بھی فلیٹ کی مالک ثابت نہیں ہوتیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز کے پاس لندن کے پوش علاقے میں مہنگی جائیدادوں کیلئے سرمائے کو بھی دیکھنا ہے ۔ اگر مریم نواز حسین نواز کے نمائندے کے طور پر کام کرتی تھیں تو ان دستاویز کو بھی دیکھنا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ وہ دستاویز ایک ٹرسٹ ڈیڈ ہے جو مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان فروری دو ہزار چھ میں ہوئی تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ جولائی دو ہزار چھ میں بیریئر سرٹیفکیٹس کی منسوخی کیلئے حسین نواز گئے یا مریم ۔ سلمان اکرم راجہ نے اصغر خان کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا اصغر خان کیس میں شواہد ریکارڈ کئے گئے تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ کیس میں چونکہ اسد درانی اور اسلم بیگ نے الزامات تسلیم کرلئے تھے اس لئے شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دیکر انکوائری نہیں کرسکتی ۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل دس اے میں شفاف ٹرائل کا کہا گیا ہے۔ کمیشن کسی شخص کو سزا دے سکتا ہے اور نہ ہی بری کرسکتا ہے۔ وہ اپنی انکوائری میں کسی کو صرف ملزم ہی ٹھہرا سکتا ہے۔ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمیشن نہیں کرسکتا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کمیشن ہمیشہ شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینچ اس وقت کوئی شواہد ریکارڈ نہیں کرا رہا ۔ اب تک کی ساری عدالتی کارروائی ایک شخص کا دوسرا کیخلاف مقدمہ ہے۔ فریقین کو سن کر ہی فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت براہ راست مجاز اداروں کا کام اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس میں معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیجا گیا تھا ۔ آپ کہتے ہیں کہ درخواست گزاروں نے شواہد نہیں دیئے اور پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں اور لندن فلیٹس الثانی خاندان نے دیئے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر حسین نواز کے موقف کو تسلیم نہ کریں تو پھر کس کا موقف مانیں ۔ وزیر اعظم کے اسمبلی کے بیان پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر ہوئی تھی مگر اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے اسے خارج کیا ۔ وزیر اعظم آج ہیں کل نہیں ہوں گے اور ہم بھی آج ہیں کل نہیں ہونگے ۔ اس لئے قانون کو دیکھنا ہے وزیر اعظم کو نہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کا معاملہ تھا مگر آپ کہتے ہیں کہ کوئی دستاویز ہی نہیں ۔ کیا چیئرمین نیب اور ایف بی آر کو تحقیقات کا کہہ دیں ۔ اگر تحریک انصاف کی دستاویز کی تصدیق ہوگئی تو پھر آپ کی کہانی کہاں جائے گی ۔ اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برجستہ کہا کہ پھر آپ راول ڈیم پر مچھلیاں پکڑنا ۔ اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ راجہ صاحب کیا دستاویزات فراہم نہ کرنا آپ کی حکمت عملی ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے لقمہ دیا کہ اگر یہ آپ کی حکمت عملی نہیں ہے تو پھر جوا ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جوا کسی کے بھی حق میں جاسکتا ہے اس لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدلیہ نے آرٹیکل دس اے اور قانون کے اصولوں کو ہمیشہ برقرار رکھا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ اس لئے بھی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست دائر ہوسکتی ہے مگر نظرثانی کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی شق تین کے تحت مقدمے میں بھی اپیل کا حق نہیں ہوتا۔ ضابطہ فوجداری کے تحت شواہد نہ ہوں تو ملزم کا موقف درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت اس سے اتفاق کرتی ہے ۔ یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ شک و شبہہ سے بالاتر ہوکر کیس ثابت کرے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جب کوئی جرم ہی نہیں ہوا تو کمیشن بنانے کا جواز بھی نہیں۔ اصغر خان کیس میں عدالت نے معاملہ متعلقہ ادارے کو تحقیقات کیلئے بھیجا تھا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے فوجداری معاملے کو تحقیقات کیلئے متعلقہ فورم کو بھیجا اور کیس میں کرپشن کے معاملے پر فائنڈنگ دی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کی جانب سے الزام تسلیم کرنے پر ڈیکلریشن دیا۔ کیس میں آئینی عہدیداروں کی جانب سے آئین کی خلاف ورزی تسلیم کی گئی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جائیداد سے متعلق شریف خاندان کی وضاحت اطمینان بخش نہیں۔قطر میں کاروبار کی دستاویزات نہیں دی گئیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر ان کی وضاحت مسترد ہوجائے تب بھی پہلے فریق کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ دادا دنیا میں نہ رہے، اس وقت بچے کما نہیں رہے تھے۔ میڈیم کلثوم نواز گھریلو خاتون ہیں، ایسے میں تو صرف ایک فرد ہی بچتا ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی شق تین کے مقدمے میں کسی کو مجرم یا بے قصور نہیں ٹھہراسکتی،۔ فوجداری جرم کی تحقیقات متعلقہ فورم پر ہوتی ہیں، اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ کی وضاحت دیانتدارانہ نہیں تو کیا ہوگا۔ وزیراعظم نے فلیٹس خریدنے کا بیان دیا، بچوں نے اس کی تردید کردی ۔ کلثوم نواز اور وفاقی وزراء نے بھی فلیٹس سے متعلق الگ الگ بیانات دیئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کلثوم نواز نے کوئی بیان نہیں دیا وہ صحافی کا ذاتی آرٹیکل تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ امریکا میں اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف تحقیقات عام اداروں سے نہیں کرائی گئیں۔ جب ادارے لکھ کر دے دیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کیا کریں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ امریکا میں اعلیٰ عہدیداروں سے تحقیقات کی منظوری عدالت نہیں کانگریس دیتی ہے۔ عدالت اداروں کو حکم دے سکتی ہے۔ ادارہ انکار نہیں کرسکتا، کوئی ادارہ اپنے کام میں ناکام ہو تو سپریم کورٹ ہدایات جاری کرے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کو تمام پہلوئوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں اپیل دائر نہ کرنے کی نیب کی وجوہات متاثرکن نہیں۔ وزیراعظم نے طیارہ سازش کیس میں مقررہ مدت کے بعد اپیل دائر کی جس کی اجازت سپریم کورٹ نے دی تھی۔ اسی طرح چیئرمین نیب کو بھی حدیبیہ پیپر مل کیس میں اپیل دائر کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ ہر کیس کے اپنے میرٹ ہوتے ہیں اور فیصلہ بھی اسی پر ہوتا ہے۔ انھوں نے استفسار کیاکہ کیا عدالت ایسا اصول وضح کرسکتی ہے جو حالات و واقعات سے ماورا ہر مقدمے پر لاگو ہو کیونکہ آرٹیکل باسٹھ کے تحت نااہلی کے لئے کسی عدالتی فورم کا ڈیکلریشن ضروری ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالتی سماعت کے بعد میڈیا پر شام کو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ عدالتی سماعت شفاف نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ ٹی وی پر میڈیا دوستوں کے فیصلوں کا حصہ نہیں بنتے ہوں گے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا جب سے وہ اس کیس کے وکیل مقرر ہوئے ہیں وہ ٹی وی پر نہیں جاتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فورم کی جو بھی فائنڈنگ ہو حتمی کارروائی کیلئے معاملہ متعلقہ فورم پر ہی جاتا ہے۔ کیا عدالت آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی شق تینکے تحت کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسے مقدمے میں عدالت متنازع حقائق میں نہیں جاسکتی کیونکہ اپیل کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ وضاحت کا موقع تو شیطان کو بھی دیا گیا تھا۔ مچھلیاں پکڑنے والی انکوائریاں نہیں کی جاسکتیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسی وجہ سے عدالت غیر معمولی احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ دلائل کے اختتام پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ الزام لگانے والوں نے کوئی شواہد نہیں دیئے اور ابھی پتہ چلا ہے کہ الزام لگانے والوں نے مزید دستاویزات بھی عدالت میں جمع کرادی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کوئی سازش ہے تاکہ کیس مکمل ہی نہ ہو۔ اگر درخواست گزار نے کوئی دستاویز دیں۔ اس میں آپ کی ضرورت پڑی تو پوچھ لیں گے۔ تحقیقات اور ٹرائل متعلقہ فورم پر ہی ہوسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت معلومات تک رسائی مانگ رہی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے پاس بھی مواد اکٹھا ہوگیا ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ چیئرمین نیب اور ایف بی آر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ چیئرمین نیب حدیبیہ پیپر،منی لانڈرنگ کا ریکارڈ پڑھ کر ساتھ لائیں کیونکہ عدالت ان سے سوال کرے گی۔ چیئرمین ایف بی آر عدالت کو بتائیں کہ ان کے ادارے نے نوٹس بھیجنے کے علاوہ پنامہ میں کیا کاروائی کی۔ عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔