پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل کو جج صاحبان کے سخت سوالات کا سامنا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 16, 2017 | 13:10 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ)پانامہ کیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کا سلسلہ آج بھی جاری رہا۔ وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے جبکہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے ججز نے مخدوم علی خان سے تند و تیز سوالات کئے۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ بطور وکیل اپنے دلائل واپس نہیں دہرائیں گے۔ انہوں نے وزیراعظم کی تقریر کے حوالے سے کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کو یاد دلایا

کہ وزیر اعظم نے خود ہی استثنی لینے سے انکار کیا تھا۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بیان میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ غلط بیانی موجود ہے۔
جسٹس عظمت کے اس سوال پر کہ کیا اس استثنیٰ کو ختم کیا جاسکتا ہے مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ استثنی پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور وہی اس کو ختم کر سکتی ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ زیر سماعت مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے اور وزیر اعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں بلکہ عدالت میں اس پر انحصار کیا جارہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا وزیراعظم کے وکیل کو کہنا تھا کہ پہلے آپ نے کہا تھا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی، لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اس تقریر کو عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 بھی آئین کا ہی حصہ ہے۔
جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا؟
اس موقع پر مخدوم علی خان نے بھارتی عدالتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے موجود ہیں کہ جس میں اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی کا اطلاق نہیں ہوا۔
جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ کیا بھارتی آئین میں بھی آرٹیکل 62 موجود ہے؟ جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ بھارتی آئین میں بھی صادق اور امین کے الفاظ موجود ہیں۔
مخدوم علی خان نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سمیت راجا پرویز اشرف اور رفیق تارڑ کے سابقہ مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے مخدوم علی خان کو جواب دیا کہ دہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا، آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟
مخدوم علی خان نے عدالت کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے آرٹیکل 63 ون سی واضح ہے۔ جواباً عدالت کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے کہ عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے اور اگر کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
جس کے جواب میں مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کے فیصلے کی بنیاد پر تقاریر پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا 184/3 کے مقدمہ میں جس قسم کے کاغذات جمع کرائے گئے وزیراعظم کو ان کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے؟
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ میرا عدالت کے اختیار سماعت پر کوئی اعتراض نہیں، تاہم دہری شہریت کی بنیاد پر نااہل قرار دینے اور صادق اور امین کی بنیاد پر نااہلی میں فرق ہے۔