پاناما پیپرز انکوائری بل: 1950 سے 2016 تک کے کالے کرتوت، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے شریف برادران کے لیے شکنجہ تیار کر لیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 16, 2016 | 06:51 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک)پارلیمنٹ میں جمعرات کی شب منظور کیے جانے والا پاناما پیپرز انکوائری بل 2016 میں تجویز کیا گیا ۔ جسکی رو سے جو شخصیات رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار ہوں یا انھوں نے بیرون ملک اثاثے ہونے کا کھلے عام اعتراف کیا ہو اُن کے خلاف سب سے پہلے تحقیقات کی جائیں اور اِن تحقیقات  کے نتائج کو منظر عام پر لایا جائے۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کی طرف سے پیش کیے گئے پ

اناما پیپرز  انکوائری بل میں تجویز کیا گیا ہے جو شخص یا اشخاص بیرون ملک اثاثے یا پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف کر چکے ہوں ان کی تحقیقات تین ماہ میں مکمل کی جائیں۔

اس بل میں مزید کہا گیا ہے کہ بارِ ثبوت بھی جواب دہندہ پر ہو کہ وہ اپنے اور اپنے افراد خانہ کی آمدن اور اُن ذرائع جن سے جائیداد اور اثاثے بنائے گئے ہیں ان کو قانونی اور جائزہ ثابت کرے۔

اس مسودہ قانون میں تجویز کردہ کمیشن آف انکوائری سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ہو اور اس کا سربراہ یا تو چیف جسٹس آف پاکستان ہو یا پھر کمیشن میں شامل تینوں ججوں میں سے سینیئر ترین جج کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔کمیشن آف انکوائری کے اختیارات کے بارے میں تجویز کیا گیا ہے کہ اس کو تعزیراتِ پاکستان، ضابطہ فوجداری  اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہوں۔اسی قانون  میں یہ بھی کہا گیا  ہے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں اور ان کے ادارے جن میں سٹیٹ بینک آف پاکستان، قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارہ، انٹیلی جنس بیورو اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اس کمیشن کو مکمل مدد اور تعاون فراہم کریں اور اس کے احکامات کی تعمیل کریں۔مزید براں یہ قانون مطالبہ کرتا ہے کہ  کمیشن کو قومی اور بین الاقوامی سطح کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنانے اور بیرونی ممالک اور بین الاقوامی ایجنسیوں سے اقوام متحدہ کے انسداد بدعنوانی کے کنونشنز، مسروقہ اثاثوں کی برآمدگی کے بارے میں ورلڈ بینک کے ضابطوں اور دیگر عالمی معاہدوں کے تحت بھی تعاون حاصل کرنے کا اختیار ہو تاکہ معلومات، دستاویزات اور شواہد اکھٹے کیے جا سکیں۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز کے تحت پندرہ سوالات رکھے گئے ہیں جن کی روشنی میں کمیشن کو اپنی تحقیقات مکمل کرنی ہے۔

پہلا سوال جو تجویز کیا گیا اس کے تحت کمیشن کو یہ دیکھنا ہے کہ جواب دہندہ یا اس کے خاندان کی سنہ 1950 سے 2016 کے درمیانی عرصے میں اپنے نام سے یا بے نامی کتنی جائیداد اور اثاثے تھے اور ان کی کیا خرید و فروخت ہوئی۔