پاناما کیس:سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا اب فیصلے کا انتظار کریں: سپریم کورٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 23, 2017 | 11:30 صبح

اسلام آباد(مانیٹرنگ):پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے اور سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا لیکن اب فیصلے کا انتظار کریں، وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ فلیٹ نواز شریف کے نہیں. اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے، انہوں نے ثبوتوں کا ذکر نہیں کیا .بلکہ قانونی نکات کا انبار لگا دیا. پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پانامہ کا دفاع کررہی ہے۔پیر کوجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سما

عت شروع کی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے تاثر ملا جیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے. جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سوالات فیصلہ نہیں ہوتے. سوالات پوچھنے کا مقصد وضاحت طلب کرنا ہوتا ہے۔جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم پہلے کہتے تھے کہ ہر چیز کلیئر کرنا چاہتا ہوں، معاملہ عدالت آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا، وزیراعظم نے اپنا کیس وکیل سمیت بچوں سے الگ کر دیا اور دستاویزات پیش کرنے کے بجائے استحقاق کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزرا ءعدالت آ رہے ہیں. حکومتی مشینری کیس کا دفاع کررہی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی. منگل کا دن اسمبلی میں نجی کارروائی کے لئے مختص ہوتا ہے. لیکن انہوں نے منگل کو نہیں پیر کو تقریر کی۔ اگر وزیراعظم کو ذاتی وضاحت دینا تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ رولز معطل کرکے کوئی کارروائی کرے، کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی. اس معاملے کو آرٹیکل 69مکمل کر رہاہے، آپ آرٹیکل 69پڑھیں اور اس پر دلائل دیں. جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69کے زمرے میں نہیں آتی. وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے بتایا کہ اپوزیشن نے تقریر کے بعد واک آﺅٹ کیا۔توفیق آصف نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی، کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اس دن تقریر نہیں ہو سکتی۔ کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تقریر کے متن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے۔ ہم آپ کی جمع کروائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں، جس پر توفیق آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے، ممکن ہے ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہو ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ فلیٹ نواز شریف کے نہیں، اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے. انہوں نے ثبوتوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ قانونی نکات کا انبار لگا دیا، پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پانامہ کا دفاع کررہی ہے. میں سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے. جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا، سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا، اب فیصلے کا انتظار کریں۔

 

 

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم عوام اور سپریم کورٹ کو جواب دہ ہیں، ہم نے سپریم کورٹ میں 80-1979 تک کی رقم کی منتقلی کے ثبوت فراہم کردیئے ہیں لیکن تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں بیرون ملک سے آنے والی خیرات کے پیسے کے حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاناما کیس کی عدالتی کارروائی پر تبصرے سے گریز کریں گے اور آج سپریم کورٹ کے باہر سڑک پار الیکشن کمیشن کی کارروائی پر بات ہوگی جہاں سے تحریک انصاف کو ایک بار پھر نوٹس جاری ہوا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے 6 بار تاریخیں دی گئیں ان پر توہین عدالت بھی لگی جس پرانہوں نے معافی بھی مانگی لیکن ان کی جانب سے خیرات کے پیسوں کی منی ٹریل کا کوئی جواب یا ثبوت نہیں دیا گیا اور آج پھر ان کو توہین عدالت کا نوٹس ملا ہے، الیکشن کمیشن میں ان کی تلاشی شروع ہوچکی ہے پی ٹی آئی غیرملکی فنڈنگ کی تفصیلات کیوں نہیں بتارہی۔ قوم کے سامنے دہرا معیار واضح ہو گیا ہے قوم کے سامنے اتنا بڑا تضاد نہیں چلے گا۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ قطری کا خط ختم ہوتا ہے تو منی ٹریل بھی ختم ہوگئی ، وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا ہمارے پاس منی ٹریل کے سارے ثبوت موجود ہیں ۔نوازشریف کا سارا کیس تباہی کی طرف جارہا ہے۔ اگر یہ سچے ہیں تو بی بی سی اور آئی سی آئی جے کو عدالت میں لیکرجائیں ۔ انکا کہنا تھا کہ پاناما کا معالہ اٹھانے والے صحافی نے تصدیق کی ہے کہ لندن فلیٹس کی اصل مالک مریم نواز ہیں ۔ عدالت میں ثبوتوں کی بجائے ٹیکنیکل باتوں کے انبار لگائے گئے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ میں اقتدار میں آئے بغیر ہی کرپٹ ہو گیا ہوں جو کبھی نہیں ہوا ۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ قطری خط سنی سنائی بات ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں اور پاکستان سمیت دنیا کی کوئی عدالت سنی سنائی بات کو نہیں مانتی ۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کا ہاتھی وہی کا وہی کھڑا ہے تاہم اگر منی ٹریل اور ثبوت نہ لائے جا سکے تو کیس مشکل ہو جائے گا ۔ شیخ رشید احمد کا مزید کہنا تھا کہ رواں ہفتے پاناما کیس اہم دوراہے پر آگیا ہے اور قومی امنگوں کے مطابق کرپشن کے خلاف گھیرا تنگ ہوگا ۔”حکومتی وکیل ثبوت پیش نہ کر سکے تو کیس سنجیدہ ہو جائے گا “۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں کرپشن ختم ہو گی تو صوبوں میں بھی ختم ہو جائے گی،وزیر اعظم کو استثنیٰ حاصل ہے لیکن بدیانتی کو نہیں ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ پانامہ کیس کو چلتے ہوئے عدالت میں140دن ہوچکے ہیں،ہم نے کوشش کی ہے کہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے،ہم چاہتے ہیں کہ کیس منطقی انجام تک پہنچے،وزیر اعظم کو استثنیٰ حاصل ہے لیکن بدیانتی کو نہیں ہے،کیس کے معاملے میں حکومت خوف میں مبتلا ہے،کے پی کے میں حالات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے اپوزیشن کا سڑکوں پر حکومت کیلئے آئینہ ہے،حکومت نے کمیشن بنانے کی تجویز قبول نہیں ،کرپشن عی وجہ سے ادارے تباہ ہوچکے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ جس جس نے بھی کرپشن کی ہے ان کو کٹہرے میں لایا جائے،ایک بیٹے نے باپ کو52کروڑ کا تحفہ دیا ہے تو اوروں نے کیا کیا کھایا اور چھپایا ہوگا۔