پاکستان میں ادل بدل پارٹی جس میں بیگمات کسی اور مرد کے ساتھ رات گزارتی تھیں۔۔۔۔پاکستانی شہری کا انتہائی شرمناک انکشاف

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 11, 2017 | 21:39 شام

میلبورن (مانیٹرنگ ڈیسک) حیوانیت کی حدوں کو چھوتی مادرپدر آزادجنسی پارٹیوں کا تصور مغربی معاشرے میں تو پایا جاتا ہے لیکن قدامت پسند مشرقی معاشرے میں ایسے شیطانی کاموں کا تصور یقینا رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ ویب سائٹ  پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں ایک نام نہاد پاکستانی نے کچھ ایسے ہی بھیانک انکشافات کئے ہیں کہ جن کا تصور کر کے ہی انسان کانپ اٹھے۔چنی بابو نامی یہ شخص ان دنوں آسٹریلوی شہر میلبورن کے علاقے برائٹن میں مقیم ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ چنی بابو کا کہنا ہے کہ ضیاء

الحق کے دور میں جب پاکستان میں قدامت پسند ڈکٹیٹر شپ نافذ تھی تواپر کلاس کے لوگ اپنی بیگمات کے ساتھ ان کے گھر پر پارٹی کے لئے آتے اور پھر ایک دوسرے کی بیگمات کے ساتھ رات بسر کرتے تھے۔چنی بابو نے بیتے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا ” اس دور میں ضیاءالحق نے اپنے نظریات جابرانہ طور پر معاشرے پر نافذ کررکھے تھے۔ میں ایک پراپرٹی ڈویلپر کے طور پر کام کرتا تھا اور میرا زیادہ تر وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر پر ہی گزرتا تھا۔ ہمارا سماجی حلقہ بہت محدود تھا۔ ہم عموماً جن لوگوں سے ویک اینڈ پر ملا کرتے تھے بس انہی سے ملاقات رہتی تھی۔ ایک شب ہمارے گھر پر دوجوڑے مہمان آئے اور انہوں نے پہلی بار ’ادل بدل پارٹی‘ کی تجویز دی۔ ہم یہ سن کر بہت پرجوش ہوئے اور کہا ’کیوں نہیں؟‘ میرے لئے ایسی پارٹی سے لطف اندوز ہونے کا یہ پہلا موقع تھا لہٰذا میں نے ایک اور ایسی ہی پارٹی کی میزبانی کا اعلان کیا۔ ہم نے اگلی پارٹی کے لئے خوبصورت دعوت نامے لکھوا کر اپنے قریبی جاننے والے جوڑوں کو بھجوائے۔ ابتدائی طو رپر یہ پارٹیاں محدود تھیں لیکن پھر جلد ہی ان کی شہرت پھیل گئی۔ اب یہ معاملہ بیوروکریسی اور طاقتور شخصیات تک پہنچ گیا جو اپنے جیسے اپرکلاس مہمانوں کو بھی مدعو کرتے تھے۔ ان پارٹیوں میں اب موسیقی اور رقص کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ دراصل جنسی آزادی ایک پرانا نظریہ ہے جسے ہم نے مہذب ہوکر دھندلادیا ہے۔ کچھ اور قدامت پسند جگہوں پر بھی ایسی پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں، جن میں موم بتیاں بجھا دی جاتی تھیں اور پھر یہ آپ کی قسمت ہوتی تھی کہ آپ کے آس پاس کون ہے۔ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے ہمارا جوش اور بڑھ گیا تھا۔ مسائل سے بچنے کیلئے پولیس کو رشوت دی جاتی تھی۔ ہر کوئی آزادی کا مزہ لینا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ جب آپ پر کوئی نظریہ جبراً مسلط کیا جاتا ہے تو انسان بغاوت کر اٹھتا ہے۔ یہ ہماری فطرت میں ہے۔ یہ سلسلہ پانچ سال تک جاری رہا اور ہماری آخری پارٹی 1980ءکی دہائی کے وسط میں ہوئی۔ اس پارٹی میں 50 سے زائد مہمان آئے۔ اس پارٹی میں کئی طاقتور سیاست دانوں اور مالدار غنڈوں کے بچے بھی موجود تھے، جو طاقتور مافیا سے منسلک تھے۔ پاکستان میں بعض اوقات ان دو اقسام کے لوگ دراصل ایک ہی ہوتے ہیں۔ میں مہمان خانے کی جانب گیا تو ایک خادم کو پسینے میں شرابور اور کانپتا ہوا پایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ ایسا دیکھ لیا تھا جو اسے نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ وہ بہت خوفزدہ تھا۔ ابتدائی طور پر میرا خیال تھا کہ شاید اس نے دو مردوں کو ہم جنس پرستی کرتے دیکھ لیا تھا، لیکن یہ بات نہیں تھی۔ دراصل ایک غنڈے نے ہماری دو رقاصاﺅں کو ہیروئن پلادی تھی اور ان میں سے ایک تڑپ رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ شاید میں کوئی ڈراﺅنا خواب دیکھ رہا تھا۔ نچلی منزل سے موسیقی کی آوازیں آرہی تھیں اور باورچی خانے کے قریب ایک جوڑا مصروف تھا۔ یہ عجیب و غریب اور خوفزدہ کردینے والی صورتحال تھی۔ میں اس بات پر بھی پریشان تھا کہ کسی نے تڑپتی ہوئی رقاصہ کے بارے میں پوچھا تک نہیںتھا۔ پس، ایسے بدترین حالات میں ان پارٹیوں کا اختتام ہوا۔پانچ سال تک یہ پارٹیاں عموماً میرے گھر پر ہی منعقد ہوتی رہیں۔ جب میرے ہاں یہ سلسلہ ختم ہوگیا تو بہت سے مہمانوں نے اپنے ہاں ان پارٹیوں کا اہتمام شروع کردیا۔ اب لوگ انہیں بہت ہی خفیہ رکھتے تھے تاکہ غنڈے اور بدمعاش ان کا حصہ نہ بنیں۔ بعدازاں ہماری یہ پارٹیاں بھارت اور حتیٰ کہ لندن تک بھی پہنچ گئیں۔ کچھ لوگ آج بھی یہ سلسلہ چلارہے ہیں۔ جب بھی کبھی ممبئی، دبئی یا کراچی جانا ہوتا ہے تو کسی پرانے جاننے والے کی کال آجاتی ہے جو پوچھتاہے ’گئے دنوں کی طرح پارٹی کرنا چاہتے ہو؟‘ ہم نے ایک شاندار وقت گزارا۔ میں اب بھی اس وقت کو بہت یاد کرتاہوں۔ ان دنوں ہمارے ذہن میں بڑی سوچیں ہوا کرتی تھیں اور ہم ان کا تعاقب کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اس زمانے اور مقام سے میں جتنا دور آتا چلا گیا ہوں خود کو اتنا ہی سنجیدہ اور قدامت پسند طرز زندگی کی جانب کھنچتا محسوس کیا ہے۔ لیکن جس دور میں ہم آج جی رہے ہیں شاید اس کی روح یہی ہے۔“اور یہاں اس بات کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے جو کہ زیادہ فکر کی بات ہے۔