پریذائیڈنگ افسر پی ڈی ایم کے ہیرو!

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 20, 2021 | 20:19 شام

سولہ اور سترہ مارچ 2021ء کی درمیانی رات پی ڈی ایم کی نوازشریف کے بیانیے‘ ان سیاسی و اخلاقی فلسفے سے متاثرہ  ومفاد کشیدہ قائدین کیلئے جبر‘ قہر اورجبر کی رات تھی۔ نوابزدہ نصراللہ خان جو بزم خود ایک سیاسی انجمن تھے ان کے فلسفۂ سیاست کو کچھ لوگ فلسفۂ شرارت بھی کہتے ہیں۔ ان کی ایک طویل سیاسی جدوجہد ہے جو مارشل لاء دور میں جمہوریت کی بحالی اور جمہوری ادوار میں مارشل لاء کے  نفاذ کی ک

اوش کے گرد گھومتی ہے۔ وہ کہتے ہیں انسان ایک بار مرتا ہے۔ سیاستدان کئی بار مرتا ہے۔ ان کی نظر میں سیاستدان میں یہ اوصاف اسے عام انسان سے اعلیٰ ثابت کرتے ہیں۔ مذکورہ رات پی ڈی ایم کے نوازشریف ’’نواز‘‘ قائدین کیلئے ایسی تھی۔ اس رات مولانا فضل الرحمن نے دن بھر اجلاس کی طویل دورانیے کی صدارت کے بعد رات سوا نو بجے اپنی زندگی کی مختصر ترین پریس کانفرنس کی۔ مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس کے بعد تمام قائدین کے ساتھ کمرہ اجلاس سے نکل کر کیمروں کی چکا چوند میں یہ کہا۔ نو جماعتیں استعفوں پر متفق تھیں‘ پیپلزپارٹی نے اتفاق نہیں کیا۔ 26 مارچ کا لانگ مارچ ملتوی کیا جاتا ہے۔ مولانا یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ ان کے چہرے پر جو تاثرات‘ غصہ اور اشتعال تھا‘ ان کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ مریم نواز ان سے زیادہ پریشان تھیں۔مولانا اور مریم کی طرف سے 16 مارچ کے اجلاس میں استعفوں کا اعلان ہونا تھا۔ مولانا کے جانے کے بعد مریم نوازشریف کے میڈیا کو غصیلے رویئے اور جلی کٹی باتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ بھی چار پانچ منٹ ہی رکیں۔ اس دوران یوسف رضا گیلانی شرمسار چہرے کے ساتھ اپنی پارٹی کا مؤقف دیدہ دلیری سے پیش کرتے رہے۔

 پاکستان کی سیاست میں یہ ایک تاریخ ساز اور یادگار دن ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کا انتشار کھل کر سامنے آگیا۔ اس کا جنازہ اُٹھ گیا‘ تاہم تدفین باقی ہے۔ تدفین سے قبل کروڑ یا دس کروڑ میں ایک ہی سہی مردہ زندہ بھی ہو جاتا ہے۔ اس کی بقیہ زندگی کیسے کٹتی ہے۔ اب پی ڈی ایم کی وہی حالت اور کیفیت رہے گی۔ 

مولانا اور نوازشریف نے پی ڈی ایم کی بنیاد حکومت کے خاتمے کے عزم پر رکھی اس کو استعفوں اور لانگ مارچ کا ’’خونِ جگر‘‘ دے کرسینچا اور آبیاری کی۔پی پی پی نے شروع سے استعفوں کے معاملے میں لیت و لعل سے کام لیا اور اب ’’سفید‘‘ جواب دیدیا ہے۔ بلاول اور زرداری اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کیا۔ شاید ان کو ننھی اور منحنی جماعتوں کے بھاری بھرکم لیڈروں  کی طرف سے جیب میں سیاہی لانے کا خدشہ تھا۔ 

گزشتہ برس دسمبرکے مہینے کے آخر میں ایک سرد شب اپنے خطاب میں زرداری صاحب نے استعفوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم سے سیکھو‘ ہم سے جانو۔ میں نے آمر کو دودھ سے بال کی طرح نکال دیا تھا۔ یہ حکومت کیا چیز ہے‘‘۔ زرداری صاحب کی سربراہی میں پی پی پی 2008ء میں اقتدار میں آئی تو محترمہ کی برسی سے خطاب کے دوران بھی زرداری صاحب نے میاں نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میاں صاحب سیاست ہم سے سیکھو‘‘۔ زرداری صاحب سے سیاست سیکھی ہوتی تو میاں صاحب تیسری بار شاید ہی وزیراعظم بنتے۔ جیسے زرداری صاحب پاکستان کی سیاست میں بہت بڑا نام تو ہیں مگر اپنی سیاست کے بل بوتے پر پیپلزپارٹی کو سمیٹ سمٹا کر سندھ تک لے گئے ہیں۔ جہاں تک سیاست میں سیکھنے کی بات ہے تو راجہ ظفرالحق صاحب سے کیوں نہ سیکھا جائے۔ وہ جس کے ساتھ رہے‘ اس کے معتمد اور اوپننگ بلے باز رہے۔ ان کے نام کے آگے کرپشن کے خانے میں کاٹا اور کراس لگا ہوا ہے۔ وہ آدھی زندگی تو گزار چکے ہیں آدھی باقی بھی کٹ جائے گی اس صحرا نوردی میں…

آصف علی زرداری نے استعفوں سے انکار کرکے پی ڈی ایم کے اتحاد کے بخیے ادھیڑ دیئے۔استعفے پھینکنے کے امڈتے جذبات رکھنے والے رہنمائوں اور ان کے ان سے بھی زیادہ جذباتی حامیوں کے دل کی کیا کیفیت ہوگی؟ 

ایک لمحہ کیلئے سوچئے۔ آصف علی زرداری یہی کچھ کہتے جو 16 مارچ کو کہاہے  جبکہ 12 مارچ کو یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینٹ منتخب ہوچکے ہوتے تو ان استعفوں پر اصرار کرنے والوں کا حال ِدل کیا ہوتا اور پھریہ کس کے سنگِ آستاںپر جبینِ نیاز پٹخ رہے ہوتے۔ 

پی ڈی ایم کو ایک ہی جشن منانے کا موقع ملا تھا۔ 3 مارچ کو جب حفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی نے شکست دی۔ اس دوران سات ووٹ مسترد ہوئے اور پھر 12 مارچ گیلانی کے نام پر ٹھپہ لگے سات ووٹ رد کر دیئے  گئے۔ اب پی ڈی ایم مائنس پیپلزپارٹی کیلئے وہ سات ارکان معزز ہیں جنہوں کے ووٹ مسترد ہوئے اور مسترد کرنے والے   پریذائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ ہیروہوں گے۔زرداری صاحب اس روز میاں نواز شریف پر اتنے برہم اس لئے تھے کہ تین مارچ کو گیلانی صاحب کی جیت پر کہا جارہا تھا ۔اب فیصلے ہم کریں گے۔پنجاب میں سب سے پہلے عدم اعتماد لا کر حکومت گرائیں گے۔میاں نواز شریف نے پنجاب میں سرِ دست حکومت کی تبدیلی کو پارٹی کی مرگ سمجھ کر انکاری  ہیں۔زرداری صاحب اس انکار پر بھڑکے اور پی ڈی ایم کی اَرتھی اُٹھانے سے بھی گریز نہ کیا۔