خوشگوار زندگی چاہتے ہیں تو۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 21, 2016 | 10:19 صبح

(خصوصی رپورٹ)لاہور

شادی کا حسین خواب ہر نوجوان اپنی آنکھوں پر سجائے رکھتا ہے۔ شادی صرف رسمی کاروائی یا روایت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ کی اکائی ہے اور نئے خاندان کی مضبوط بنیاد بھی‘ اس بنیاد پر شوہر اور بیوی اعتماد‘صبر و شکر اور قناعت پسندی کی اینٹوں سے پر سکون اور جنت نما گھر تعمیر کرسکتے ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب شوہر اور بیوی کی سوچ و فکر میں ہم آہنگی ہو اور دونوں اپنی ازدواجی زندگی کی گاڑی کو اعتماد اور صبرو جستجو کے ایندھن سے آگے بڑھانے کا ارادہ کر چکے ہوں۔زندگی

کو خوشگوار بنانے کیلئے جہاں شوہر کو بھی آگے آنا ہوتا ہے وہیں بیوی کو بھی کلیدی رول ادا کرنے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔خوشگوار زندگی کیلئے پہلے ایک دوسرے کے خیالات‘میلانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خیالات اور میلانات اور رحجانات ہی شوہر اور بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کے رشتہ کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔خوشگوار زندگی ایک وسیع اور مضبوط عمارت کے مانند ہے اس کی تعمیر کو سہارا دینے کیلئے تحمل و برداشت‘ایثار‘سخت محنت‘تقدیر الہیٰ پر یقین کے ستونوں کی ضرورت رہتی ہے ان ستونوں پر شادی کے بعد خوشگوار زندگی کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ مرد پر چونکہ معاش کی ذمہ داری ہے اسلئے وہ دن کا بیشتر وقت گھر کے باہر گذارتا ہے اس کے غیاب میں بیوی گھر کی رانی کا رول ادا کرے بلکہ جو بھی میسر ہو‘ اس پرشکر خدا وندی بجا لاتے ہوئے صبر کریں اور گھر کے سازو سامان کے ساتھ اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کرے۔ گرہست خواتین کا بیشتر وقت گھر پر گذرتا ہے اسلئے انہیں چاہیئے کہ وہ شوہر نامدار کی دلجوئی کریں اور ہر معاملہ میں اس کا ساتھ دیں۔ بیوی کی زبان سے نکلنے والے چند میٹھے بول شوہر کی دن بھر کی تھکان دور کردیتے ہیں اور وہ از سر نو ہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ بیوی کی شیریں زبان سے زندگی کی پریشانیوں و مصائب کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ گھر کو بنانا اور بگاڑنا عورت کے ہاتھ میں ہے اگر عورت ‘سلیقہ مند اور تعلیم یافتہ ہے تو پھر وہ دھیرے دھیرے گھر کو سدھار سکتی ہے۔چند عورتیں پہلے سے یہ سمجھتی ہیں کہ شادی کے بعد ان کا سسرال کے ماحول میں خود کو ڈھالنا مشکل ہے ایسا وہ خواتین سوچتی ہیں جو اپنے عادت و اطوار کو ترک کرنا نہیں چاہتی جس کے نتیجہ میں نا چاقیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور یہی خوشگوار زندگی کا پہلا تباہ کن زینہ ثابت ہوسکتا ہے۔ شادی کے بعد عورت کو اپنے مائیکہ کے ناز و نخروں کا لبادہ اُتار پھینک کر سسرال یا شوہر کے گھر کے شیڈول کو اپنا چاہیئے۔وقت پر اُٹھنا‘عبادت کرنا‘ گھر کے تمام کام وقت پر کرنا ایک سلیقہ مند بیوی کی عظیم نشانیاں ہیں۔ بچپن سے اگر آپ تیز و ترش لہجہ میں بات کرتی ہونگی مگر شادی کے بعد آپ کو یہ لہجہ یکسر تبدیل کرنا پڑے گا۔
دوران گفتگو بیوی کو نرم گفتار‘شیریں کلامی اور خندہ پیشانی سے پیش آنا پڑے گا اونچی آواز میں بولنے اور ترش لہجہ اختیار کرنے سے آپ کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنانے سے گریز کریں ورنہ ہنستی‘کھیلتی زندگی کی کشتی مسائل کے بھنور کی نذر ہوجائے گی اسی لئے صبر اور برداشت کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بچوں کی پسند اور نا پسند سے بھی بیو ی اور شوہر میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔اگر شوہر‘بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرے یا سزا دے تو بیوی کو اس پر خاموش رہنا چاہیئے۔ اگر بیوی اعتراض کرتی ہے تو شوہر‘بچوں کے سامنے اپنی ہتک محسوس کرے گا۔ خوشگوار زندگی کی مستحکم عمارت کی تعمیر کیلئے شوہر کا بھی رول اہم ہوتا ہے۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے خواہشات کا احترام کریں‘ اس کے اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔شوہر کو ایک اچھا انسان بننے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب شوہر اور شفیق باپ بھی بننے کی ضرورت ہے۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر میں اعتماد کی فضا کو قائم رکھے‘شکوک و شبہات پر بیوی کی گرفت نہ کرے ۔بیوی کی بڑی اور چھوٹی غلطی پر فوراً مواخذہ نہ کرے بلکہ غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد تنہائی میں بیوی کو سمجھائیں۔بچوں کے سامنے بیوی کو نہ ڈانٹے اور نہ سمجھائے۔شوہر کو اپنی ماں‘بہن کے ساتھ بیوی کے جذبات کا بھی احترام کرنا چاہیئے۔کسی ایک فریق کی بات سن کر دوسرے کی بے عزتی نہ کرے بلکہ ماں‘بہن اور بیوی کی شکایتوں کی سماعت کرے اور مسئلہ کو فوری رفع دفع کرنے کی کوشش کرے۔ شوہرکو ہر حال میں احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہے۔بیوی کے کاموں کی ستائش کرنا‘اس کی تعریف کرناشوہر کا کام ہے اگرآپ بیوی کے کام کی ستائش نہیں کرتے ہیں تو براہ کرم اس کے کام میں نقص بھی نہ نکالیں۔بلا وجہ بیوی پر تنقید کے تیر نہ برسائیں اور اس کے سامنے خودکو بہتر و اعلیٰ تصور نہ کریں۔ کسی بھی مسئلہ و معاملہ پر اپنی بیوی سے رائے طلب کریں شوہر کو یہ بات یاد رکھنی ہے کہ نکاح کے بعد عورت ‘شریک حیات نہیں بلکہ آپ کی زندگی کی واحد بہتر دوست بھی ہے۔نبی مکرم حضرت محمد صلعم نے ارشاد فرمایا:’’ مسلمانوں میں اُس آدمی کا ایمان سب سے زیادہ کامل ہے جس کے اندر اخلاق اچھے ہوں اور بیوی کے ساتھ جس کار ویہ لطف و محبت کا ہو۔‘‘(مشکوۃ) شوہر اور بیوی انا پرستی کا خول اُتار پھینک دیں جو خوشگوار زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔