عمران خان کی پھٹیچر والی گفتگو ریکارڈ کرنے والی خاتون صحافی کی تازہ ترین تحریر منظر عام پر آگئی ، اصل راز سے سے پردہ اٹھا دیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 18, 2017 | 06:17 صبح

لاہور (ویب ڈیسک)پریس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی خاتون رکن  عفت حس رضوی  اپنی تازہ ترین تحریر میں لکھتی ہیں ۔۔۔ 6 مارچ 2017 کو میں پریس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کچھ دیگر ارکان کے ہمراہ  بنی گالہ گئی  جہاں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہمیں مدعو کیا تھا ۔ عمران خان نے وہاں  ہمارے ساتھ   اپنے میڈیا ایڈوائزرز کی موجودگی میں  پاناما لیکس  الیکشن کمیشن آف پاکستان  پی ایس فائنل  اور اگلے الیکشن

کے حوالے سے بات چیت کی۔

یہ میڈیا گفتگو پی ٹی آئی چئیرمین سیکرٹریٹ میں ہوئی  اور موجود میڈیا نمائندوں نے اسے نوٹ کیا، اس کی ریکارڈنگ کی اور میڈیا ذرائع تک پہنچایا۔ پی ٹی آئی چیف اور ان کے میڈیا ایڈوائزرز نے کسی کو ویڈیو بنانے سے نہیں روکا  اور نہ ہی کسی کو نوٹس لینے اور ڈائری میں لکھنے سے منع کیا ۔

میں نے کہانی اور ٹکرز ویڈیو کلپ کے ساتھ اپنے نیوز چینل کو بھیج دی ۔ بعد میں میں نے اس ویڈیو کا ایک حصہ اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر بھی اپ لوڈ کر دیا جس میں عمران خان نے  پی ایس ایل میں آنے والے انٹرنیشنل پلئیرز کو پھٹیچر قرار دیا تھا۔ مجھے یہ ویڈیو اس لیے اہم لگی کہ پی ایس ایل فائنل عوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور اخباروں اور ٹی وی پر اسی پر بحث و مباحثے ہو رہے تھے۔

اسی شام پی اے ایس کے صدر نے ایک پریس ریلیز جاری کی اور میرے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کیا۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ پی اے ایس سپریم کورٹ جرنلسٹ کا سہولت کار ہے نہ کہ ریگولیٹر ، مجھے جو چیز پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ کس بنیاد پر میرے خلاف ایکشن لیا جائے گا  خاص طور پر جب میں نے  کسی پرائیویسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ نہ تو میں نے کسی صحافتی اخلاقیات کو روندا ہے اور نہ  ہی میں نے کسی حقیقت کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔

میں اپنی بات کچھ سوالات کے ساتھ ختم کروں گی۔ کیا اصل اور حقائق پر مبنی خبریں نشر کرنے کے لیے بھی سیلف سینسرشپ کی ضرورت ہو گی؟ اگر کوئی عوامی شخصیت میڈیا جرنلسٹ کو میڈیا پر گفتگو کے لیے بلاتی ہے  تو کیا ان صحافیوں کو صرف گفتگو کی اچھی باتیں ہی رپورٹ کرنا ہوں گی؟  کیا یہ بد دیانتی نہیں ہو گی کہ مسائل کو نظر انداز کر کے لوگوں کو صرف سہانے خواب دکھائے جائیں  تا کہ لیڈر کو خوش رکھا جا سکے؟  اگر کسی لیڈر کے الفاظ اچھے نہیں ہیں تو کیا میڈیا اہلکار یہ بات عوام کے سامنے لانے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیے یا ان کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے؟   کیا یہ بنیادی اخلاقیات کے خلاف نہیں ہے کہ قاصد  کو ہی راستے سے ہٹا دیا جائے؟