میٹھا زہر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 13, 2019 | 21:20 شام

’’چانکیہ‘‘ جنگل سے گزر رہا تھا، اس کا دامن درخت کی شاخوں سے اُلجھ کر ’’لیر و لیر‘‘ تو نہیں ہواتاہم اس طرح کانٹوں کے دامن گیر ہونے سے ’’چانکیہ‘‘ آگ بگولہ ہو گیا۔ انتقام کے جذبے سے جل بُھن گیا۔ قصور درخت اس کی شاخوں، کانٹوں کا نہیں، یہ اس کی اپنی بے احتیاطی تھی مگر غصہ کمہار پر… اس کا بس چلتا تو درخت کو آگ لگا کر انتقام کی آگ ٹھنڈی کر لیتا مگر تناور درخت کو بلاوجہ کاٹنا جُرم اس

دور میں بھی تھا، جلانا اس سے بڑا جرم تھا۔ اس نے اپنی پوٹلی سے شکر نکالی اور درخت کے اردگرد بکھیر دی، کچھ عرصہ بعد اس کا وہیں سے گزر ہوا درخت خشک ہو چکا تھا گرنے کے لیے صرف ہوا کے تیز تھپیڑے کی ضرورت تھی۔ شکر پر کیڑے مکوڑے ہی آنے تھے۔ وہ آئے، شکر کا صفایا کرنے کے بعد درخت کی جڑوں پر حملہ آور ہوئے۔ چانکیہ نے میٹھے زہرکے ذریعے انتقام لے لیا، اسے کوئی کسی صورت موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے بظاہر کیڑوں کی خوراک کا جذبۂ ترحم سے بندوبست کیا تھا۔

نپولین والی غلطی ہٹلر نے بھی دہرائی۔ فتوحات پر فتوحات حاصل کرتا، میدان مارتا روس کو تاراج کرتا آگے بڑھتا گیا، روسی فوجیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنے شہروں کو تباہ کرتے درختوں کو آگ لگاتی گئیں۔ یخ بستہ اور سانسیں منجمد کر دینے والی سردی نپولین کی فوج کے لیے مہلک ترین اسلحہ اور بڑا دشمن ثابت ہوئی۔ اس سردی میں فوج کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں بچی تھی۔ Scorched earth Strategyروس کی سرزمین نپولین کی فوج کا قبرستان بن گئی۔ بعینہٖ ہٹلر کے ساتھ بھی ہوا…اور ہمارے دانشوروں نے اپنے اعمال ، کسی کو ان کی اقتدار کی طرف جاتی راہیں مسدود کرنے کا تہیہ طوفان کئے دیکھا تو آنے والوں کے لیے وہی کچھ کر گئے جو روس نے نپولین اور ہٹلر کی فوجوں کے ساتھ کیا تھا اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی میٹھے زہر کا بھی استعمال کیا۔

گزشتہ سے پیوستہ سال ہمارے ایک دوست کی ایک لاکھ روپیہ انکم ٹیکس ریٹرن بنی۔ گزشتہ سال حکومت نے اپنے آخری سال انکم ٹیکس پر رعایت دیدی تو ریٹرن آٹھ ہزار رہ گئی۔ سالانہ آمدن وہی تھی حکومت کی ’’دیا‘‘ کے باعث بڑے تاجروں، سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کی بچت ہو گئی۔ نئی حکومت آئی تو اس نے انکم ٹیکس کی پرانی شرح جو زیادہ پرانی نہیں ایک سال قبل تک نافذ تھی وہ بحال کر دی۔ رواں سال پھر ایک لاکھ انکم ٹیکس بنتا ہے۔ نئی حکومت نے جو اب زیادہ نئی بھی نہیں ہے۔ اس نے پیشرو حکومت کا ہی ٹیکس بحال کیا جس پر اٹھنے والا طوفان جاری ہے۔ ایک ہی سال میں ہم میٹھے زہر کے عادی ہو گئے۔ ملک کیسے چلے گا؟ ایسے چلے گا! ڈاکٹر عظمت رحمن 80 کے پیٹے میں ہیں۔ لاہور کے تین بڑے سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس رہے۔ انہیں فون آیا کہ نئے قانون کے تحت آپ انشورنس کے جمع کرائے گئے پیسے واپس لے سکتے ہیں، درخواست دیں۔ مگر وہ اپنا جائز فنڈ یہ کہتے ہوئے وصول نہیں کرنے گئے کہ میرے ملک کو آج ان پیسوں کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے۔ جانے والے ملکی خزانے کی جو حالت کر کے گئے اس کے بدتر اثرات ہر پاکستانی پر پڑ رہے ہیں۔ عمران خان نے صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کی۔ حالات جتنے دگرگوں تھے۔ ڈالر کا 160 پر آ کر رُک جانا غنیمت ہے۔ ڈالر 500 سے اوپر بھی جا سکتا تھا۔

آج پولیس گردی و بیڈ گورننس بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ بڑھی نہیں، بڑھی ہوئی دکھائی جا رہی ہے۔ یہ تیس سال کے سدھائے ہوئے اکابرین بست و کشاد کا کمال ہے۔ ’’عمرانیات کی ’’بے نیازی‘‘ سے ایسے کمالات مزید شدت کے ساتھ سر چڑھ کر بولتے نظر آئیں گے۔

سیاست میں انتقام وہ میٹھے زہر کی صورت میں ہو یا کڑوے زہر کی شکل میں معاشرے میں روا رہے یہ مہذب معاشروں میں ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت ہے۔ میری دیانتدارانہ اور سوچی سمجھی رائے ہے:سیاستدان ہمارے رہبر و راہنما اور قابلِ صد احترام ہیں۔ یہ ہمارے لیے زندگی کے ضابطہ کار، قانون اور آئین تک تخلیق کرتے ہیں۔ سیاستدان بے ایمان، جھوٹا اور بددیانت ہو ہی نہیں سکتا جو ایسا ہے وہ سیاستدان نہیں کریمنل ہے ، کریمنل کی جگہ جیل کی سلاخیں اور قیدو جرمانہ اس کا مقدر ہے۔ کسی کی بات نہ سنیں، کسی خبر پر نہ جائیں خود منصف بن کر سوچیں۔ ایک لمحے کے لیے سیاسی وابستگی تیاگ دیں۔ جن کو آپ سیاستدان سمجھتے ہیں ان کے اوصاف ملاحظہ فرمائیے، ان کے کردار کا تجزیہ کیجئے، ان میں سے کتنے سیاستدان معیار پر پورا اترتے ہیں جو جھوٹا ہے، بے ایمان ہے، بددیانت ہے وہ آپ کا رہبر کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو معمولی لیڈر ہو یا پارٹی کا قائد ہی کیوں نہ ہو۔ کہا جاتا ہے یہی سیاسی لاٹ یا ایلیٹ ہے انہی میں سے ہم نے انتخاب کرنا ہے۔ گویا اس ایلیٹ میں جس بھی فطرت قماش اور اوصاف کے لوگ ہوں۔ ذرا نظر دوڑائیں آج کی سیاست میں بڑا مقام رکھنے والے لوگوں پر، سب سے پرانا سیاستدان جو بھٹو کی کابینہ میں وزیر رہا وہ سید قائم علی شاہ ہیں جو آج بھی سیاست میں متحرک ہیں ۔ ایوب کی کابینہ کے بھی خال خال وزرا شایدزندہ ہونگے مگر فعال و متحرک نہیں ہیں۔ قائم علی شاہ کو بھی ’’نکرے‘‘ لگا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بڑے بڑے کردار موجود رہے۔ آئے اور چلے گئے۔ کھل کھیلنے والے زیادہ آئے۔ سیاست میں کوئی معمولی حیثیت رکھتا ہے یا غیر معمولی اگر وہ دیانتدار سچا اور محب وطن نہیں ہے تو یہی سیاست میں کالی بھیڑ ہے جسے سیاست سے قوانین عوام کی طرف سے اپنے رویوں کے ذریعے دلوں سے نکال باہر کرنا ہو گا۔