سوئمنگ پول میں نہاتی لڑکیوں کے ساتھ ایسا کیا شرمناک کام ہوا کہ ہنگامہ برپا ہو گیا اور پولیس کو بلانا پڑ گیا۔جانیے اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 06, 2017 | 21:47 شام

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک):) وفاقی دارالحکومت میں واقعہ ہیلتھ کلب کے عملے نے خود کو سفارتکار کہنے والی خاتون کو سوئمنگ پول میں نہاتی لڑکیوں کی ویڈیو بنانے سے منع کیا تو اس نے مبینہ طور پر عملے کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔نجی خبر رساں ادارے ایکسپریس ٹریبیون نے صفاءگولڈ مال میں واقع ہیلتھ سینٹر ”سمارٹس“ کے منیجر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ”وہ خواتین اور لڑکیوں کیلئے مخصوص وقت تھا جب اس خاتون نے موبائل فون کیمرے کے ذریعے ریکارڈنگ شروع کر دی۔ عملے کے ایک رکن نے جب اس خاتون ک

و ویڈیو بنانے سے روکنے کی کوشش کی تو اس نے دھکا دیدیا اور تماشا لگا لیا، بعد میں اس نے عملے کی ایک خاتون رکن کو تھپڑ بھی مارا۔“ منیجر نے مزید کہا کہ اس خاتون کے پاس کلب کی ممبرشپ بھی نہیں تھی اور وہ تیراکی والے حصے میں مکمل کپڑے پہن کر داخل ہوئی۔ خاتون کیساتھ بحث کے دوران ہی پولیس کو بلا لیا گیا جو کچھ ہی دیر میں پہنچ گئی۔ منیجر نے دعویٰ کیا کہ ”ہم نے خاتون اور اس کا سمارٹ فون پولیس کے حوالے کر دیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے، لیکن بعد میں اسے چھوڑ دیا، مذکورہ خاتون دعویٰ کر رہی تھی کہ پاکستان کیلئے امریکی سفیر ہے۔“ اس سارے معاملے پر کوہسارپولیس سے رابطہ کیا گیا تو ایک افسر نے موقف اختیار کیا کہ انہیں واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ موقع پر پہنچے لیکن ”معاملہ حل ہو چکا تھا۔دونوں فریقین کے درمیان افہام تفہیم ہو گئی تھی اور معاملہ حل ہو گیا تھا، اس لئے ہم نے مداخلت ہیں کی۔“ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس اور کلب کی انتظامیہ، دونوں ہی خاتون کی شناخت سے لاعلم ہیں اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کلب انتظامیہ سے اس بابت بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی کہ ”معاملہ خوش اسلوبی کیساتھ معاملہ حل ہو چکا ہے۔“دوسری جانب اس ساری صورتحال کے چشم دید گواہ کلب کے ایک ممبر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر خاتون کلب کی ممبر نہیں تھی تو پھر وہ اندر کیسے داخل ہو گئی کیونکہ کلب میں داخلے کیلئے بائیو میٹرک سسٹم لگا ہے۔ کلب ممبر کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ مال کی سیکیورٹی میں خامی کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ خاتون کا کلب میں داخل ہونے کا دوسرا واحد راستہ صرف وہی رہ جاتا ہے جو عملے کیلئے مختص ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اس معاملے میں تحقیق نہیں کی گئی۔اور معاملہ یوں ہی رفع دفع ہو گیا۔