قطر سے سیاں جی کے نام ایک اور چٹھی آگئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 26, 2017 | 12:59 شام

اسلام آباد(مانیترنگ)پاکستان کی سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی طرف سے جو اضافی دستاویزات جمع کروائی گئی ہیں ان میں لندن فلیٹس کے بارے میں قطری شہزادے کا ایک اور خط بھی پیش کیا گیا ہے۔

قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے اس دوسرے خط میں اپنے دنیا میں پھیلے ہوئے کاروبار کا ذکر کیا ہے۔

عدالت میں پیش کیے گئے اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے والد میاں شریف نے سنہ 1980 میں قطر میں

ایک کروڑ بیس لاکھ قطری ریال کی سرمایہ کاری کی تھی۔

قطری شہزادے نے اس خط میں یہ بھی کہا ہے کہ اُن کے ذمے میاں شریف کے 80 لاکھ امریکی ڈالر واجب الادا تھے جو سنہ 2005 میں نیلسن اور نیکسول کمپنیوں میں شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے بیئرنگ سرٹیفکیٹس کی ادائیگی لندن کی ایک کاروباری شخصیت وقار احمد کے ذریعے کی گئی۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الثانی خاندان کا ایک نمائندہ جدہ میں شریف فیملی سے ملا تھا اور لندن میں انٹربینک ریٹ پر رقم کی ادائیگی پر اتفاق ہوا تھا۔

قطری شہزادے نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ اُن کے والد اور میاں نواز شریف کے والد کے درمیان کاروباری تعلقات تھے اور اُن کے بڑے بھائی کاروباری معاملات کو دیکھا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ یہ دوسرا خط ہے جو قطری شہزادے کی طرف سے لکھا گیا ہے اس سے پہلے گذشتہ برس نومبر میں مذکورہ قطرے شہزادے کا پہلا خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

ادھر پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز شریف کے وکیل شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آمدن کو تحفے میں ظاہر کیا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اُن کی موکلہ ابھی تک زیر کفالت ہیں۔

اس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ابھی تک زیر کفالت پر قانون خاموش ہے اور اس لفظ کے بارے میں ڈکشنری میں جو معنی لکھے ہوں گے اُنہی پر بھروسہ کیا جائے گا۔

بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر ڈکشنری میں کسی بھی لفظ کا مطلب مختلف ہوتا ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہویے کہا کہ اگر کسی لفظ کی تشریح نہ ملے تو مقدمے کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

مریم نواز شریف کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکلہ شادی کے بعد اپنے والد کے ساتھ بھی رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان کے زیر کفالت ہیں۔

سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ نے وزیر اعظم کی صاحبزادی کے وکیل کے سامنے متعدد سوالات اُٹھائے ہیں کہ کیسے اُن کی موکلہ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہا جبکہ اُنھیں زیادہ تر تحائف میں ملی ہے۔

متعلقہ عنوانات

پاکستان