جب میں نے موت کو بالکل قریب سے دیکھا ۔۔۔ مایہ ناز پاکستانی اداکار قوی خان کی زندگی کے دو ناقابل فراموش واقعات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 17, 2017 | 13:44 شام

لاہور (شیر سلطان ملک) پاکستانیوں کے ہر دلعزیز   اداکار قوی خان  ایک انٹرویو  میں بتاتے ہیں ۔۔۔۔میری عمر اس وقت سات آٹھ برس ہوگی، جب مجھے موت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پشاور میں ایک روز میں نہر میں نہاتے ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ پانی کا بہاؤمجھے پل کے نیچے لے جانے کو تھا، جہاں پہنچ جاتا تو بچنے کی جو تھوڑی بہت اُمید تھی وہ بھی جاتی رہتی۔ اس گھبراہٹ کے عالم میں بہت ہاتھ پیر مارے، لیکن سب بے سود۔ ایسے میں میرے بڑے بھائی، جو نہر میں نہا رہے تھے ، ان کی ا چانک مجھ پر نظر پڑی ا

ور انہیں میری حالت کا اندازہ ہوگیا۔ وہ تیرنا خوب جانتے تھے، اس لیے، بڑی تگ ودو کے بعد مجھے کنارے پر لے آئے۔ میں اس وقت شدید گھبراہٹ اور خوف میں مبتلا تھا۔ چھوٹی سی عمر میں موت کا سامنا کرنے کا یہ تجربہ بہت خوف ناک اور دل دہلا دینے والا تھا۔
 اس واقعے نے مجھ پر ایسا لرزہ طاری کیا کہ میں بعد میں نہر میں نہانے کے خیال سے باز ہی رہا۔ جس زمانے میں پی ٹی وی پر ’’اندھیرا اجالا‘‘ چل رہا تھا ، مجھے بچوں کے ایک فنکشن میں شرکت کی غرض سے فیصل آباد جانا پڑا۔ راستے میں مغرب کا وقت ہوگیا، تو مجھے نماز کی ادائیگی کا خیال آیا۔ ایک پیٹرول پمپ کے ساتھ مسجد دیکھ کر میں نے ادھر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس اثنا میں ایک برق رفتار بھاری گاڑی بے قابو ہوکر میری گاڑی سے آٹکرائی، جس سے میری گاڑی، جسے میں خود چلا رہا تھا، گھوم گئی اور اس کا برا حال ہوگیا اور انجن جام ہوگیا۔ حادثے کے باعث لوگ وہاں فوراً جمع ہوگئے۔ مجھے انہوں نے پہچان لیا اور بڑی مشکل سے گاڑی سے باہر نکالا۔ میں زخموں سے چُور چُور، اس سوچ میں تھا کہ اس شدید تصادم کے باوجود زندہ سلامت کیسے بچ گیا ہوں۔ علاج معالجے کے لیے مجھے اسپتال لے جایا گیا اور میری مرہم پٹی کی گئی۔ اسی حالت میں اگلے روز میں اس تقریب میں شریک ہوا، جس کے لیے مجھے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے کہ میں بچ گیا۔ اس لمحے بھی میں نے اﷲ کو یاد کیا۔ دین کو میں خود سے کبھی جدا نہیں کرتا۔ گھر سے قدم باہر رکھتے وقت میں خود کو اﷲ کے حوالے ضرور کرتا ہوں، اس سے ایک تحفظ کا احساس آپ کو رہتا ہے۔ زندگی میں بہت زیادہ مشکلات رہیں، جن کا مقابلہ کرنے کے قابل اس لیے ہوا کہ خالق حقیقی سے اپنا رابطہ قائم رکھا۔ یہ دونوں واقعات ایسے ہیں ، جن کی یاد میرے ذہن میں ہمیشہ رہی اور میں انہیں کبھی بھلا نہ پایا۔