قلعہ دیپالپور
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع جولائی 15, 2017 | 08:17 صبح
لاہور(مہرماہ رپورٹ): دیپالپورکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملتان کے بعد برصغیر کا قدیم ترین قصبہ ہے۔ یہاں سے ملنے والے سکوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 175 قبل مسیح کے ہیں۔ یہاں موجود عمارات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدیم زمانے میں بھی وہاں آباد لوگ تہذیب یافتہ تھے۔ یہاں کی شکستہ عمارات اس خطے کی قدیم تاریخ ، قلعہ، مندر، سرائے وغیرہ حکمرانوں کی شان و شوکت کو بیان کرتی ہیں۔ دیپالپور کے تنگ گلی کوچے، قدیم عمارتیں اور آثار تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہاں موجود قلعے کو دیکھ کر یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ قلعہ بہت قدیم ہے لیکن تاریخ میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ یہ قلعہ کب اور کس نے تعمیر کروایا تھا۔ فیروز شاہ کے دور میں اس قلعے کی تعمیر نو کی گئی اور اس کے گرد دفاعی خندق کھودی گئی لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ قلعہ فیروز شاہ نے ہی تعمیر کروایا تھا۔
مشہور ہے کہ جب راجا دیپاچند نے یہاں قبضہ کیا تو اس جگہ کا نام دیپالپور رکھ دیا تھا۔ دیپالپور ایک فوجی چھاﺅنی کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس نے تیرہویں اور چودہویں صدی میں سلطنت کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ نوید اسلم اپنی کتاب ”پاکستان کے آثار قدیمہ“ میں لکھتے ہیں کہ 1285ءمیں شہنشاہ بلبن کا بیٹا محمد تغلق یہاں کا حکمران تھا ۔وہ منگولوں کے خلاف ایک خونریز معرکے میں مارا گیا۔ محمد تغلق کا مقبرہ آج بھی کسمپرسی کی حالت میں دیپالپور میں موجود ہے اور بقول شاعر
برمزار غریباں نے چراغ نے گلے
یعنی اس مقبرے پر اب کوئی پھول چڑھاتا ہے نہ کوئی چراغ جلاتا ہے۔
تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ مغل بادشاہ دہلی اور لاہور کے درمیان سفر کرتے تو دیپالپور میں قیام کرتے تھے۔ مغلیہ دور میں اس قصبے کو سرکاری حیثیت حاصل تھی لیکن انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اس قصبے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ جس سے یہ قصبہ پسماندگی کا شکار ہونے لگا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ 1518ءمیں شہنشاہ اکبر اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کے ہمراہ پاکپتن حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری کے لئے آیا تو اس نے دیپالپور میں ہی قیام کیا۔ اس دور میں عبدالرحیم دیپالپور کا گورنر تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغلیہ دور تک دیپالپور کو خاص اہمیت حاصل تھی۔
دیپالپور میں ایک قدیم مندر بھی موجود ہے۔ مشہور ہے کہ راجا دیپاچند کی بیوی رانی دھولراں نے اپنے سوتیلے بیٹے لعل راج کو بددعا دی کہ تو زمین میں غرق ہو جائے۔ کمسن لعل راج کھڑا کھڑا زمین میں دھنسنا شروع ہو گیا۔ یہ دیکھ کررانی پریشان ہو گئی اوراسے پکڑنا چاہا لیکن رانی کے ہاتھ میں صرف لعل راج کے بال ہی آ سکے اور وہ زمین میں دھنس گیا۔ راجا دیپاچند کو علم ہوا تو اس نے رانی کو قتل کروا دیا اور اپنے بیٹے کی یاد میں یہاں مندر تعمیر کروا دیا جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ مندر کے قریب ایک وسیع اور عالی شان سرائے بھی تعمیر کروائی گئی جہاں دور دراز سے مندر میں آنے والے قیام کرتے تھے۔ سرائے کے درمیان میں بہت بڑا صحن تھا جبکہ چاروں طرف کھلے ہوادار کمرے تھے۔ ایک عرصے تک یہاں ایک میلہ لگتا رہا۔ ہندو اپنی منتیں پوری کرنے اور اپنے بچوں کے بال ترشوانے کے لئے یہاں آتے رہتے تھے لیکن پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
قلعہ دیپالپور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کی دیوار پر 24 برج تھے۔ قلعے کے اندر 24 مساجد اور 24 تالاب تھے۔ یہ قلعہ تعمیر کرنے والوں کی 24 کے ہندسے سے کیا نسبت تھی اس کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ قلعے کے چار دروازوں میں سے دو دروازے ابھی تک موجود ہیں اور قلعے کی گزشتہ شان و شوکت کی گواہی دے رہے ہیں۔ قلعے میں کئی سرنگیں اور خندق بھی موجود تھی جو مٹی سے بھر دی گئی ہیں لیکن ان کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ یہ سرنگیں شاہی محلات سے مسجد اور باغات میں جانے کے لئے شاہی خاندان کے افراد استعمال کرتے تھے۔ قلعے اور اس کے گرد و نواح میں پانی پہنچانے کے لئے دریائے ستلج سے ایک نہر نکالی گئی تھی جو قلعے کے گرد باغات کو پانی فراہم کرتی تھی۔ قلعہ دیپالپور ماضی کی شان و شوکت کی علامت کے طور پر آج بھی موجود ہے اور سیاحوں کے لئے دلچسپی کے باعث ہے۔