کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج کے شہیدوں کی تعداد60 ہوگئی 3دہشتگرد ہلاک

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 25, 2016 | 07:22 صبح

کوئٹہ(مانیٹرنگ)پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے آپریشن میں دو بمباروں سمیت تین دہشت گرد ہلاک کر دیئے گئے اور 250 پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرا لیا گیا۔ حملے میں 60 اہلکار شہید اور 117 زخمی ہو گئے۔ پولیس ٹریننگ کالج کو دہشتگرد حملے کے بعد کلیئر کرا لیا گیا۔ ہاسٹل میں شدید فائرنگ اور زور دار دھماکے ہوئے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے کامیاب آپریشن کر کے 250 سے زائد اہلکاروں کو بازیاب کرا لیا۔ہولناک دہشت گردی پر کوئٹہ سمیت ملک بھر کی فضا سوگوار ہے۔وزیر اعلیٰ نے صوبے میں تین روزہ سوگ کا

اعلان کیا۔سیکورٹی ذرائع کے مطابق تین دہشت گردوں نے رات کے وقت پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کیا۔ دہشتگردوں نے فائرنگ کر کے واچ ٹاور پر موجود اہلکار کو شہید کیا اور پھر ہاسٹل میں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔اطلاع ملتے ہی پاک فوج کی اسپیشل ٹیم، ایف سی اور اے ٹی ایف اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کیا۔ پاک فوج اور ایف سی کمانڈوز کی کارروائی میں ایک بمبار مارا گیا جبکہ دو نے خود کو دھماکوں سے اڑا لیا۔آپریشن کے دوران ہیلی کاپٹرز سے فضائی نگرانی بھی کی گئی۔ دہشتگردوں کے حملے میں درجنوں اہلکار زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر کے ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔ اس دوران آپریشن بھی جاری رہا اور فورسز نے تقریباً تین گھنٹے میں عمارت کو کلیئر کرا لیا۔آپریشن مکمل ہونے کے بعد آئی جی ایف سی میجر جنرل شیرافگن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں جبکہ دہشتگردوں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے تھا۔وزیرداخلہ بلوچستان نے حملے کے وقت ہاسٹل میں سات سو پولیس اہلکاروں کی موجودگی کی تصدیق کی اور فورسز کے بروقت اور موثر آپریشن کو قابل تعریف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا فورسز کی بروقت کارروائی نے دہشتگردوں کو محدود رکھا۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ حملے میں ملوث دہشت گردوں میں سے ایک کی شناخت ہو گئی، خودکش بمبار کی عمر 12 سال کے قریب ہے۔
 

دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں تھے، تینوں حملہ آوروں نے خود کش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کالج میں تقریباً 700 کے قریب کیڈٹس موجود تھے جن میں سے زیادہ تر کیڈٹس کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔جوابی کارروائی میں اندھیرے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس کالج کے اندر آتی جاتی رہیں ، اس دوران کئی ہیلی کاپٹرز بھی فضاء میں گشت کررہے تھے۔جائے وقوع پر موجود پولیس اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملے کے دوران کئی زور دار دھماکے بھی سنائی دئیے۔

 

واضح رہے کہ پولیس ٹریننگ کالج سریاب روڈ پر واقع ہے جو کہ کوئٹہ کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور اس علاقے میں شدت پسند تقریباً ایک دہائی سے سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے آرہے ہیں۔
اس سے قبل 2006 ءاور 2008 ءمیں بھی ٹریننگ کالج پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا جو کالج کے گراو¿نڈ میں جاکر گرا تھا۔کالج کا رقبہ تقریباً دس ایکڑ ہے اور یہ مرکزی کوئٹہ شہر سے تقریباً 13 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔حملہ آوروں نے شال پہن رکھی تھیں۔ایک عینی شاہد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے تین دہشت گردوں کو براہ راست بیرکس میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔اس نے بتایا کہ ’دہشت گرد شال اوڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کردی جس کے بعد ہم سڑھیوں اور خارجی راستے کی جانب بھاگنے لگے‘۔
مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے کوئٹہ کے ہسپتالوں کے باہر سیکیورٹی کے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے بالخصوص 8 اگست کو دہشت گردوں کی جانب سے سول ہسپتال کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ادھر صوبائی حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا۔

 

وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔وزیر اعظم آج خود بھی کوئٹہ چلے گئے۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے صوبائی اور وفاقی حکام کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو جلد از جلد بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ امریکا نے بھی کوئٹہ حملے کی مذمت کی، اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکا مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔انہوں نے حملے میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کے لواحقین سے تعزیت جبکہ زخمی ہونے والے اہلکاروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہا رکیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق پولیس ٹریننگ کالج حملے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ پہنچ گئے جبکہ ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) میجر جنرل ندیم ذکی منج بھی ان کے ہمراہ ہیں۔آرمی چیف واقعے میں زخمی ہونے والے کیڈٹس کی عیادت کی۔

 

واضح رہے کہ رواں برس کوئٹہ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات رونما ہوئے، 28 جون 2016 کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔13 ستمبر 2016 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڑ پر پولیس ٹریننگ کالج کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔اس کے علاوہ پولیس ٹریننگ کالج ماضی میں 2008 اور 2006 میں بھی دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آیا تھا جہاں کالج کے میدان میں راکٹ فائر کئے گئے تھے۔
صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔