بجھارتیں،،،رضا ربانی کی رام لیلا سمجھنے کی نہ سمجھانے کی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 24, 2016 | 18:24 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ)چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات کیلئے اٹھنا چاہئے۔ پاکستان میں کوئی بھی سیاستدان فوج کے خلاف نہیں ہے۔ جب تمام ادارے بشمول فوج پارلیمنٹ کے تابع ہے تو سول ملٹری تعلقات پر سوالات کیوں اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی بات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں کسی نہ کسی حیثیت میں پانچ چیلنجز کا سامنا رہا ۔ ان میں سول ملٹری تعلقات، پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان مسئلہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ اور پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤسز کے درمیان مسائل شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات کے حوالے سے حکومتوں سے مسائل اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ۔اشرافیہ کے پھیلائے ہوئے اس تاثر کو زائل کرنا ہے۔ پاکستان میں اب بھی پارلیمنٹ اپنے اختیارات کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دولت مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن کے تحت سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق، قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن اور سی پی اے کے سیکرٹری جنرل نے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔ رضا ربانی نے کہا آمریت سے جمہوریت کی طرف سفر سے ہم نے سبق سیکھے ہیں۔ ہمیں اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے پارلیمنٹ صرف ڈیبیٹنگ کلب ہے۔ مراعات اور استحقاقات کیلئے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یوتھ بالخصوص جامعات کیلئے پارلیمنٹ کے دروازے کھولے ہیں۔  کوئی اختیارات کو منتقل کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ سول ملٹری تعلقات میں سیاسی کے ساتھ مالیاتی اور معاشی معاملات بھی کارفرما ہےں۔ پاکستان میں بار بار مارشل لاءلگنے کی وجہ سے ناکام جمہوریت کا تاثر پیدا ہو گیا اور اشرافیہ چاہتی ہے جمہوریت کے بارے میں ایسا تاثر برقرار رہے۔ انہوں نے کہا آئین نے تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کر دیاہے ۔ چیئرمین سینٹ نے کہا پاکستان میں کوئی ایک سیاستدان بھی فوج کے خلاف نہیں ہے۔ فوج بھی پارلیمنٹ کے تابع ہے۔ تمام اداروں کو آئینی دائرہ کار کے تحت کام کرنا ہے اور ان کی یہ ذمہ داریاں عوامی خواہشات کی عکاسی ہونی چاہئیں جس کی عکاسی پارلیمنٹ سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یقینا سسٹم میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے۔ گورننس اور شفافیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ تاہم آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ریاست کو چلایا نہیں جا سکتا۔ اچھی آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ جمہوریت ”بجلی“ کی طرح نہیں ہے کہ سوئچ آن کریں روشنی ہو جائے۔ سوئچ آف کرنے سے تاریکی ہو جائے۔ جمہوریت ایک سسٹم اور عمل کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا قانون امتیازی نہیں ہو سکتا۔ یہ قانون صرف سیاستدان کیلئے مخصوص نہیں ہو سکتا۔ احتساب کے حوالے سے پاکستان میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ تمام سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں۔ کوئی احتساب سے مبرا نہیں۔ بے لاگ یکساں احتساب کا قانون ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا سینٹ کو اپنی آئینی جنگ کے مطابق مشترکہ اجلاس میں جائز مقام حاصل نہیں ہوتا۔ سینٹ وفاقی اکائیوں کا نمائندہ ایوان ہے۔ سب صوبوں کی مساوی نمائندگی ہے۔ مگر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینٹ کے 104 ارکان کو قومی اسمبلی کے 342 ارکان کا سامنا ہوتا ہے۔ سینٹ کو اپنی آئینی قوت کے مطابق حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔