جنرل(ر) راحیل شریف کا فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کے متعلق سیاسی حلقوں میں ہلچل۔۔۔۔ تفصیلات اس خبرمیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 11, 2017 | 07:47 صبح


حکمران جماعت (مانیٹرنگ رپورٹ)مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک نے واضح کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوج کی سربراہی سے متعلق خبروں پر تبصرہ کرنا نا مناسب ہے، کیونکہ ابھی تک انھوں نے اس عہدے کے لیے فوج یا حکومت سے اجازت طلب نہیں کی۔

مصدق ملک کا کہنا تھا کہ جو چیز ابھی تک ہوئی ہی نہیں اس بارے میں پہلے سے سوالات اٹھانا اور حکومتی لاعلمی کا تاثر پیش کرنا درست نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف اس معاملے پر پال

یسی بیان دیں گے، لہذا وہ پہلے سے کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بغیر کسی ثبوت الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیئے اور اسی سے ریاست مضبوط ہوسکتی ہے۔

پروگرام میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق وزیر دفاع سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ راحیل شریف کی اسلامی فوج کی سربراہی سے متعلق خبروں نے عوام اور سیاسی حلقوں میں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کوئی بھی سول اور فوجی شخص جس نے ملک کے کسی بھی ادارے میں کام کیا ہو، اسے کم از کم دو سال تک کسی ایسی جگہ جانے کے لیے حکومت اور اپنے ادارے سے اجازت لینی پڑتی ہے، جہاں پر مفادات میں تضاد پیدا ہونے کا حدشہ ہو، لہذا اس وقت سب جاننا چاہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا حقیقت ہے، جسے عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔

خیال رہے کہ کچھ روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دہشت گردی کے خلاف 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بنائے جانے کی تصدیق کی تھی۔

نجی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے معاہدے کو چند روز قبل حتمی شکل دی گئی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس معاہدے کے حوالے سے زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔

خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی واضح کیا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کی پیشکش ہوئی تو وہ یقیناً حکومت سے اس کی اجازت لیں گے۔

حال ہی میں نجی چینل کے پروگرام ’ندیم ملک لائیو‘ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ’سعودی عرب کی خواہش تھی کہ آرمی چیف رہتے ہوئے راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بنیں، لیکن حکومت اور فوج کا خیال تھا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں اور اس سے مفادات میں تضاد پیدا ہوگا۔‘

واضح رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنائے جانے کے بعد پاکستان ابتدا میں اس میں شمولیت سے متعلق مخمصے کا شکار رہا۔

تاہم ابہام دور ہونے کے بعد پاکستان نے اس اتحاد میں اپنی شمولیت کی تصدیق کردی، لیکن کہا گیا کہ اتحاد میں اس کے کردار کا تعین سعودی حکومت کی طرف سے تفصیلات ملنے کے بعد کیا جائے گا۔